اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے ملک کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ 'ای سی ایل' سے نکالنے کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پیر کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاق کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی صدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے یا نا نکالنے کا فیصلہ سماعت مکمل کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے علاوہ دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں اس لیے اُنھیں ملک سے باہر نا جانے دیا جائے۔
سابق صدر کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں پرویز مشرف کی طبی رپورٹیں اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیے جس میں معالجوں نے انھیں بیرون ملک علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے وفاق کی درخواست کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے 12 جون کو پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عدالتی فیصلے کا اطلاق 15 روز بعد ہو گا۔
سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس دوران اگر وفاقی حکومت چاہے تو وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتی ہے۔
سابق صدر اپنے علاج اور اپنی علیل والدہ سے ملنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور اُنھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی تھی کہ اُن کا نام ایسے افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنہیں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے یہ دلائل دیے جاتے رہے ہیں کہ ان کے موکل تمام مقدمات میں ضمانت پر ہیں اور کسی عدالت کی طرف سے اُن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد نہیں اس لیے اُنھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
سابق صدر پر پاکستان کی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں جن میں سب سے اہم تین نومبر 2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر آئین شکنی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
آئین شکنی کے مقدمے میں 31 مارچ کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی لیکن سابق صدر نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی کا نفاذ اُنھوں نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری کمانڈروں کی مشاورت سے کیا تھا۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پیر کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاق کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی صدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے یا نا نکالنے کا فیصلہ سماعت مکمل کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے علاوہ دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں اس لیے اُنھیں ملک سے باہر نا جانے دیا جائے۔
سابق صدر کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں پرویز مشرف کی طبی رپورٹیں اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیے جس میں معالجوں نے انھیں بیرون ملک علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے وفاق کی درخواست کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے 12 جون کو پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عدالتی فیصلے کا اطلاق 15 روز بعد ہو گا۔
سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس دوران اگر وفاقی حکومت چاہے تو وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتی ہے۔
سابق صدر اپنے علاج اور اپنی علیل والدہ سے ملنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور اُنھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی تھی کہ اُن کا نام ایسے افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنہیں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے یہ دلائل دیے جاتے رہے ہیں کہ ان کے موکل تمام مقدمات میں ضمانت پر ہیں اور کسی عدالت کی طرف سے اُن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد نہیں اس لیے اُنھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
سابق صدر پر پاکستان کی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں جن میں سب سے اہم تین نومبر 2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر آئین شکنی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
آئین شکنی کے مقدمے میں 31 مارچ کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی لیکن سابق صدر نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی کا نفاذ اُنھوں نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری کمانڈروں کی مشاورت سے کیا تھا۔