اسلام آباد —
گزشتہ برسوں میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور شدت پسندی نے جہاں ہزاروں لوگوں کی جان لی وہیں مذہبی اقلیتیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا۔
انہیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں جس پر عالمی سطح پر حقوق انسانی کی تنظیموں اور مختلف ملکوں کی طرف سے آوازیں اٹھائی گئیں۔
مذہبی اقلیتوں سے متعلق اس سنگین صورتحال کا از خود نوٹس لیتے سپریم کورٹ نے حال ہی میں طرفین کے معروضات کو سننے کے بعد حکومت کو مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی فورس اور مذہبی برداشت پر مبنی نصاب مرتب کرنے اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کونسل کے قیام کی ہدایت دی۔
مذہبی اقلیتوں کے رہنماؤں نے اس قدم کو سراہا تاہم ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی یہ ہدایت کافی نہیں بلکہ اس پر عمل در آمد اور موثر و غیر امتیازی قانون سازی ضروری ہے۔
احمدی برادری کی تنظیم کے ترجمان سلیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’پولیس کسی کے کہنے پر جا کر ہماری مسجد کے مینار توڑ دیتی ہے، لکھا ہوا کلمہ صاف کردیتی ہے، ہمارے قبرستانوں میں قبروں کے قطبے توڑ دیتی ہے۔ پھر لاہور میں ہمارے خلاف کانفرنس ہوئی جس کا انعقاد اوقاف نے کیا۔ کیا کسی کو حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کے خلاف ’’امتیازی‘‘ قوانین کے ہوتے ہوئے یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ ’’ہمارے خلاف ریاست امتیازی سلوک میں ملوث ہے۔‘‘
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی برادری کے کچھ لوگوں نے پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ لے رہے ہیں مگر بیشتر اب بھی بحیثیت پاکستانی ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔
ملک کے آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن امین شہیدی کہتے ہیں کہ کسی کی عبادت گاہ پر حملہ، کسی کا قتل یا زبردستی مذہب کی تبدیلی غیر اسلامی فعل ہے۔
’’اسلام کو قبول کرنے کا صرف اور صرف راستہ عقلی و استدلالی ہے۔ اگر دلیل سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام حق کا راستہ ہے تو وہ قبول کرے۔ کوئی بھی طاقت اسے اسلام کی طرف مائل یا داخل نہیں کرسکتی۔ قران کی واضح آیت ہے کہ دین میں جبر نہیں۔‘‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے شعبہ نفسیات کے سربراہ رضوان تاج کا کہنا ہے کہ عبادت گاہوں پر حملے کا مقصد دراصل سنسنی پھیلانا ہوتا ہے۔
’’مذہب کی ہماری زندگی میں کافی اہمیت ہے تو کسی گروہ یا ’ذہین‘ شخص کے لیے اس چیز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا سب سے بڑا موقع ہوتا ہے کوئی کام کرنے یا پریشر گروپ بنانے کے لیے۔ تو یہ ان کے لیے آسان راہ ہوتی ہے کہ ایک گروہ کو قابو کرلے۔‘‘
پاکستان میں انتہا پسندی اور عدم برداشت پر قابو پانے کے لیے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں تعلیمی نصاب میں اصلاحات کی کوششیں کی گئیں لیکن قدامت پسند اور مذہبی گروہوں کے دباؤ کے پیش نظر انہیں روک دیا گیا۔
انہیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں جس پر عالمی سطح پر حقوق انسانی کی تنظیموں اور مختلف ملکوں کی طرف سے آوازیں اٹھائی گئیں۔
مذہبی اقلیتوں سے متعلق اس سنگین صورتحال کا از خود نوٹس لیتے سپریم کورٹ نے حال ہی میں طرفین کے معروضات کو سننے کے بعد حکومت کو مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی فورس اور مذہبی برداشت پر مبنی نصاب مرتب کرنے اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کونسل کے قیام کی ہدایت دی۔
مذہبی اقلیتوں کے رہنماؤں نے اس قدم کو سراہا تاہم ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی یہ ہدایت کافی نہیں بلکہ اس پر عمل در آمد اور موثر و غیر امتیازی قانون سازی ضروری ہے۔
احمدی برادری کی تنظیم کے ترجمان سلیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’پولیس کسی کے کہنے پر جا کر ہماری مسجد کے مینار توڑ دیتی ہے، لکھا ہوا کلمہ صاف کردیتی ہے، ہمارے قبرستانوں میں قبروں کے قطبے توڑ دیتی ہے۔ پھر لاہور میں ہمارے خلاف کانفرنس ہوئی جس کا انعقاد اوقاف نے کیا۔ کیا کسی کو حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کے خلاف ’’امتیازی‘‘ قوانین کے ہوتے ہوئے یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ ’’ہمارے خلاف ریاست امتیازی سلوک میں ملوث ہے۔‘‘
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی برادری کے کچھ لوگوں نے پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ لے رہے ہیں مگر بیشتر اب بھی بحیثیت پاکستانی ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔
ملک کے آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن امین شہیدی کہتے ہیں کہ کسی کی عبادت گاہ پر حملہ، کسی کا قتل یا زبردستی مذہب کی تبدیلی غیر اسلامی فعل ہے۔
’’اسلام کو قبول کرنے کا صرف اور صرف راستہ عقلی و استدلالی ہے۔ اگر دلیل سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام حق کا راستہ ہے تو وہ قبول کرے۔ کوئی بھی طاقت اسے اسلام کی طرف مائل یا داخل نہیں کرسکتی۔ قران کی واضح آیت ہے کہ دین میں جبر نہیں۔‘‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے شعبہ نفسیات کے سربراہ رضوان تاج کا کہنا ہے کہ عبادت گاہوں پر حملے کا مقصد دراصل سنسنی پھیلانا ہوتا ہے۔
’’مذہب کی ہماری زندگی میں کافی اہمیت ہے تو کسی گروہ یا ’ذہین‘ شخص کے لیے اس چیز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا سب سے بڑا موقع ہوتا ہے کوئی کام کرنے یا پریشر گروپ بنانے کے لیے۔ تو یہ ان کے لیے آسان راہ ہوتی ہے کہ ایک گروہ کو قابو کرلے۔‘‘
پاکستان میں انتہا پسندی اور عدم برداشت پر قابو پانے کے لیے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں تعلیمی نصاب میں اصلاحات کی کوششیں کی گئیں لیکن قدامت پسند اور مذہبی گروہوں کے دباؤ کے پیش نظر انہیں روک دیا گیا۔