رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں سے چھ مجرموں کو سزائے موت


میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی طرف سے جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری پیغام میں بتایا گیا کہ یہ مجرم دہشت گردی، قتل، خودکش دھماکوں، انسانی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے ’’وحشیانہ‘‘ جرائم میں ملوث تھے۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے چھ دہشت گردوں کی سزاؤں کی توثیق کر دی ہے۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی طرف سے جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری پیغام میں بتایا گیا کہ یہ مجرم دہشت گردی، قتل، خودکش دھماکوں، انسانی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے ’’وحشیانہ‘‘ جرائم میں ملوث تھے۔

ان کے بقول مجرم سزا کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہلاکت خیز دہشت گرد حملے کے بعد قومی لائحہ عمل وضع کیا گیا تھا اور بعد ازاں آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔

ان عدالتوں کے قیام پر ملک کے مختلف حلقوں بشمول بڑی وکلا تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسے ایک متوازی نظام عدل قرار دیتے ہوئے اس کی مخالف کی۔

اس بارے میں سپریم کورٹ میں بھی درخواستیں دائر کی گئی جن میں فوجی عدالتوں کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے اور ان کی کارروائیوں میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔

تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں ان فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا۔

ان کے بقول یہ عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی گئی ہیں اور میں چلائے جانے والے مقدمات میں ملزمان کو قانون کے مطابق صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا۔

حال ہی میں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے 50 سے زائد مقدمات بھجوائے جا چکے ہیں جب کہ صوبوں کی طرف سے وزارت داخلہ کو ارسال کیے گئے درجنوں مقدمات کو چھان بین کے بعد اس بنا پر واپس بھجوا دیا گیا کہ یہ ان عدالتوں میں سماعت کے لیے وضع کردہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔

چودھری نثار علی خان نے کے بقول تین مختلف مراحل میں مقدمات کی چھان بین کے بعد ہی انھیں فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے

XS
SM
MD
LG