پاکستان کی حکومت نے پارلیمان کو بتایا ہے کہ 2015ء میں تشکیل پانے والی فوجی عدالتوں میں اب تک 486 مقدمات بھیجے جاچکے ہیں جن میں سے 333 پر کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔
دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں غیر فوجی افراد کے مقدمات چلانے کی منظوری دی گئی تھی اور گزشتہ سال اس مدت میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ دفاع نے تحریری طور پر ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ 2015ء سے اب تک 186 مجرموں کو فوجی عدالتوں سے سزائے موت سنائی گئی۔
مزید برآں 101 مقدمات پر ابھی کارروائی جاری ہے جب کہ 52 مقدمات خارج کیے گئے۔
فوجی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردوں کو دی جانے والی دیگر سزاؤں کی تفصیل کے مطابق 79 افراد کو عمر قید، 47 کو 20 سال قید، ایک مجرم کو 18 سال، ایک مجرم کو 16 سال، 13 مجرموں کو 14 سال، تین کو 10 سال اور دیگر دو کو سات سال قید کی سزائیں دی گئیں۔
اس عرصے کے دوران سزاؤں کے خلاف فوج کی اپیلِٹ کورٹ میں 332 درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے 307 کو نمٹا دیا گیا جب کہ 25 پر ابھی کارروائی ہونا باقی ہے۔
سزاؤں کے خلاف فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کی گئی رحم کی تمام 151 اپیلیں مسترد ہوئیں جو بعد میں صدرِ پاکستان کو بھیجی گئیں جن میں سے 62 مسترد ہو چکی ہیں جب کہ 89 وزارتِ داخلہ کے پاس ہیں۔
فوجی عدالتوں کی طرف سے اس عرصے کے دوران ایک شخص کو بری بھی کیا گیا۔
حکومت نے بتایا ہے کہ سزاؤں کے خلاف 74 مختلف اپیلیں سپریم کورٹ سمیت ملک کی دیگر اعلیٰ عدالتوں میں دائر کی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں فوجی عدالتوں کے قیام کی آغاز ہی سے یہ کہہ کر مخالفت کرتی آ رہی ہیں کہ ان عدالتوں کی کارروائی کی غیرجانب داری مشکوک ہے۔
تاہم حکومت اور فوج دونوں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان عدالتوں میں ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے جب کہ ان سزاؤں کے خلاف وہ اپیل کا حق بھی رکھتے ہیں۔