پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے فوجی عدالتوں کی بحالی اور ان کی مدت میں دو سال کی توسیع کے لیے منظور کردہ 28 ویں آئینی ترمیم کے بل پر صدر ممنون حسین نے دستخط کر دیئے ہیں۔
صدر کے دستخط کے بعد یہ ترمیم آئندہ دو سال کے لئے نافذالعمل ہو گئی ہے۔
اس بل کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت ہو گی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ملک کے کئی حلقے فوجی عدالتوں کے قیام کی اس بنا پر مخالفت کرتے رہے ہیں کہ ان عدالتوں کا قیام مروجہ عدالتی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
تاہم حکومتی عہدیداروں کا موقف ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے غیر معمولی حالات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدام ضروری ہیں۔
پاکستان میں وکلاء کی ایک نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ مروجہ عدالتی نظام کے متوازی کوئی بھی نظام انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا ہے۔
وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی متوازی عدالت کا نظام انصاف کے تقاضوں کی ضمانت نہیں دے سکتا ہے۔ کوئی بھی ملزم چاہے وہ دہشت گرد ہو یا کوئی عام ملزم ہو اس کے خلاف مقدمے کی صاف و شفاف سماعت کے لیے پہلے سے فوجداری عدالتیں اور قوانین موجود ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ملک میں ماضی میں بھی فوجی عدالتیں بنائی گئی تاہم ان کے بقول یہ مسئلہ ختم نہیں ہو سکا ہے۔
"فوجی عدالتیں یا کوئی بھی انتہائی (متوازی) قانون دہشت گردی کو ختم کرنے کا حل نہیں ہے۔ "
انسانی حقوق کی تنظیمیں ان عدالتوں کے قیام اور ان میں چلائے جانے والے مقدمات میں مبینہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے نا کیے جانے سے متعلق سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔
تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا یہ موقف رہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جن ملزمان کے خلاف مقدمات چلائے گئے اُنھیں نا صرف صفائی کا پورا موقع دیا گیا بلکہ انہیں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔
واضح رہے کہ جنوری 2015ء میں ایک آئینی ترمیم کے تحت ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور ان کی مدت رواں سال جنوری کے اوائل میں ختم ہو گئی تھی۔