پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں اور فوج کے درمیان جھڑپوں میں شدت کے بعد بعض علاقوں سے لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی جاری ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جمعرات کی صبح جاری کیے گئے ایک بیان میں تصدیق کی گئی کہ خیبر ایجنسی میں جاری کارروائی کے دوران اتوار کی شب ایک مہلک جھڑپ ہوئی، جس میں 21 شدت پسند اور آٹھ فوجی ہلاک ہو گئے۔
بیان کے مطابق آپریشن "خیبر ون" کے دوران یہ جھڑپ سپن قمر کے علاقے میں ہوئی۔
اس قبائلی علاقے حالیہ مہینوں میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک ہی دن میں مارے جانے والے فوجیوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ہلاک ہونے والے فوجی اہلکاروں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کی گئی جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی۔
اُدھر حکام کے مطابق خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ اور وادی تیراہ کے علاقوں سے لگ بھگ 18 ہزار افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
خیبر ایجنسی میں بسنے والے ان افراد کا کہنا ہے کہ آپریشن ’خیبرون‘ کے دوران جہاں مقامی حکام کی طرف سے اُنھیں محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا کہا گیا تو دوسری طرف شدت پسندوں کی طرف سے یہ دھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگر لوگوں نے اپنے گھر چھوڑے تو اُنھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستانی فورسز نے رواں ماہ ہی خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا جس میں فضائی کارروائیاں بھی کی گئیں۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ خیبر ون آپریشن کے آغاز کے بعد درجنوں عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر خود کو حکام کے حوالے کر چکے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کچھ دہشت گرد فرار ہو کر خیبر ایجنسی میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے تھے اور انھی معلومات کی بنا پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
15 جون کو پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی ضرب عضب کے نام سے بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک 1100 سے زائد ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلاک اور ان کے زیراستعمال ٹھکانوں کو تباہ کیا جا چکا ہے جب کہ ٹنوں کے حساب سے اسلحہ اور گولہ و بارود برآمد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔