رسائی کے لنکس

وفاقی حکومت آئندہ چھ ماہ میں 19 کھرب روپے قرض لے گی


فائل
فائل

پاکستان میں وفاقی حکومت نے آئندہ 6 ماہ میں مزید 19 کھرب روپے سے زائد کا قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں احکومت نے تحریری طور پر تسلیم کیا ہے کہ موجودہ حکومت رواں سال جنوری سے جولائی تک مالی خسارے کے ضمن میں 19 کھرب روپے سے زائد کا مزید قرضہ لے گی۔ جس میں اندرونی طور پر 800 ارب جب کہ بیرونی ذرائع سے 11 ارب روپے کا قرضہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ حکومتی قرضے کی ضرورت محاصل اور اخراجات کے درمیان فرق پر منحصر ہے۔ حکومتی قرضے کی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے بھی ضرورت پڑتی ہے جن کے لیے کثیر وسائل درکار ہوتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران تحریری جواب میں وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت کو 2023 تک 122 کھرب 61 ارب روپے کا اندرونی جب کہ 28 ارب 20 کروڑ ڈالرز سے زائد بیرونی قرض واپس کرنا ہے۔

حکومت نے کتنا قرض لیا؟؟

حکومتی دستاویزات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور حکومت کے پہلے ایک سال میں ریکارڈ قرض لیا۔ یہ قرضہ اگست 2018 تا اگست 2019 کے دوران لیا گیا، جس سے ایک سال میں غیر ملکی قرضے میں 2804 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

سرکاری دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے ایک سال میں قرضوں میں 7 ہزار 509 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت کے مقامی قرضوں میں 4 ہزار 705 ارب اور غیر ملکی قرضے میں 2 ہزار 804 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

اگست 2019 تک وفاقی حکومت کا قرضہ 32 ہزار 240 ارب روپے ہو گیا جو اگست 2018 میں مجموعی قرضہ 24 ہزار 732 ارب روپے تھا۔ موجودہ صورت حال برقرار رہنے پر 2024 تک ملک کا مجموعی قرض 45 ہزار 573 ارب روپے ہو جائے گا۔

16 دسمبر 2019 کو قومی اسمبلی میں تحریری طور پر دیے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سال 2007 سے پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں اندرون ملک 5316 ارب جب کہ بیرونی 18 اعشاریہ 95 ارب ڈالر قرضہ لیا۔ ن لیگ دور میں 8778 ارب روپے اندرونی جب کہ 16 اعشاریہ 78 ارب ڈالر بیرونی قرضہ لیا گیا۔ تحریک انصاف نے جولائی 2018 سے جون 2019 تک اندرونی 4313 ارب روپے جب کہ بیرونی 3 اعشاریہ 21 ارب ڈالر قرض لیا۔

اجلاس کے دوران موجودہ دور حکومت میں سعودی عرب، یو اے ای اور قطر سے حاصل کردہ قرضوں کی تفصیل بھی پیش کی گئی جس کے مطابق سعودی عرب نے نومبر اور دسمبر 2018 میں 2 ارب ڈالر قرض 3 فیصد سود پر دیا اور جنوری 2019 میں ایک ارب ڈالر قرض پاکستان کو دیا،یو اے ای نے جنوری اور مارچ 2019 میں ایک ایک ارب ڈالر قرض 3 فیصد سود پر دیا جب کہ قطر نے جون 2019 میں 500 ملین ڈالر قرض 3 فیصد سود پر دیا۔

حکومتی موقف

2 فروری کو جاری ایک بیان میں حکومت کا کہنا تھا کہ حکومت نے 15 ماہ میں بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے صرف4.11 ٹریلین روپے قرضہ لیا۔ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت نے جولائی 2018ء سے ستمبر 2019ء تک 15 ماہ کے عرصہ میں بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے 4.11 ٹریلین روپے قرض حاصل کیا ہے۔ جب کہ بعض میڈیا چینلز کا کہنا ہے کہ یہ قرض 11.61 ٹریلین روپے ہے۔

اتوارکو جاری کردہ ایک سرکاری اعلامیے میں وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ مالی سال 2018-19ء اور پہلی سہ ماہی مالی سال 2019-20ء کے عرصہ کے دوران 11.61 ٹریلین قرض کی خبروں کا ماخذ فناس ڈویژن کی جانب سے حالیہ دنوں میں فسکل رسپانسبلٹی اینڈ لمی ٹیشن ایکٹ 2005ء کی شق 6 اور7 کے تحت قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی ڈیٹ پالیسی سٹیٹمنٹ اور فسکل پالیسی سٹیٹمنٹ ہیں جو مالی سال 2018-19ء اور مالی سال 2019-20ء کی پہلی سہ ماہی کے 15 ماہ پر محیط عرصہ سے متعلق تھیں اور جن میں اس عرصہ کے دوران قرض اور مالیاتی کارکردگی سے متعلق تمام تفصیلات شامل تھیں۔

وزارت خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ حتمی قرضوں اور ادائیگیوں میں پانچ اہم اجزاء شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک جزو کل ملکی قرض کا ہے جب کہ دوسرا جزو سرکاری اداروں کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا ہے۔ اسی طرح اشیائے صرف کی نقل و حمل کے لیے لیا گیا قرض، سٹیٹ بینک کی غیر ملکی زر مبادلہ کی ادائیگی کی ذمہ داریاں اور نجی شعبے کے غیر ملکی قرضے بھی کل قرضوں اور ادائیگیوں کے اہم اجزاء ہیں۔

وزارت خزانہ کے مطابق اگر ان پانچوں عوامل کو مد نظر رکھا جائے تو جولائی 2018ء سے ستمبر 2019ء تک 15 ماہ کے عرصہ میں مجموعی قرضوں اور ادائیگیوں کے حجم میں 11.61 ٹریلین روپے کے اضافہ میں سے صرف 4.11 ٹریلین روپے (35 فیصد) مالی خسارہ پورا کرنے کے لیے خرچ کیا گیا ہے جب کہ مجموعی قرض میں 3.54 ٹریلین روپے (31 فیصد) اضافہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا۔

اسی طرح مجموعی قرض میں 2.42 ٹریلین روپے (26 فیصد) کاا ضافہ حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک سے مستقبل میں قرض نہ لینے کے فیصلہ کے بعد کیش بیلنس کی سطح بڑھانے سے ہوا ہے جو مشکل اور غیر متوقع حالات سے نبٹنے کے لیے محفوظ کی گئی ہے تاہم اس کا مجموعی قرض پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

مزید برآں 0.25 ٹریلین روپے (3 فیصد) کا قرض اس فرق کی وجہ سے ہے جو سٹیٹ بینک کے جاری کردہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز(پی آئی بی) کی فیس ویلیو اور حاصل شدہ ویلیو میں ہوتا ہے تاہم سٹیٹ بینک کی غیر ملکی زر مبادلہ کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو قرض نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کی تلافی یا اس کا خلا پر کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کے لکوئیڈ اثاثہ جات دستیاب ہیں۔

اس کے ساتھ 0.47 ٹریلین روپے (4 فیصد) قرض کی رقم سرکاری اداروں کی جانب سے ان کی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے حاصل کی گئی ہے۔ اسی طرح کموڈٹی آپریشن کی مد میں 0.08 ٹریلین روپے(منفی01 فیصد) قرض کی واپسی ایک خوش آئند امر ہے۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا ہے کہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں پاکستان کے نجی شعبے کے غیر ملکی قرضوں کے حجم میں 0.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو ہے۔ تاہم نجی شعبے کے غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ایک مثبت رحجان ہے جس سے ملک کے نجی شعبے کی اپنی کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے اشتراک و روابط کی عکاسی ہوتی ہے۔

موڈیز کیا کہتا ہے؟؟

غیر ملکی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی پاکستانی بينکوں سے متعلق جاری رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ جولائی سے پاکستانی روپیہ مستحکم ہے تاہم معاشی ترقی تقریباً رُکی ہوئی ہے۔

موڈیز کی رپورٹ کے مطابق چند ماہ کے دوران حکومتی قرضوں ميں بہتری آئی ہے ليکن سخت مانیٹری پالیسی سے بینکوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

موڈیز نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ جولائی 2019ء سے پاکستانی روپیہ مستحکم ہے تاہم معاشی ترقی رکی ہوئی ہے۔

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کیا کہتے ہیں؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے نجی ٹی وی سما ٹی وی پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک سال میں پاکستان کا 4 ہزار ارب کا قرض صرف کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا۔ جس سے ہمارے بیرونی قرضوں پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

گذشتہ سال 8.9 فیصد تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب کا بجٹ خسارہ ہوا۔ اس کے ساتھ ٹیکس ریونیو بھی کم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سود کا خرچ ایک سال میں 5 سو ارب روپے بڑھا ہے جو 1500 ارب سے بڑھ کر 2000 ہزار ارب گیا ہے اور اس سال یہ 3200 ارب ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت ہمارا نیٹ ریونیو 3000 ارب تک ہو گا، جس کی وجہ سے حکومت کے پاس قرضے لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایسے میں بجٹ خسارہ 4 ہزار ارب کا ہو گا اور تمام تر اخراجات کے لیے قرض چاہیے ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں ایک ایسا کام ہوا جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ حکومت نے سٹیٹ بینک سے 12 ہزار ارب روپے کا قرض حالیہ دنوں میں لیا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف یہ قرض لینے سے روک رہا تھا، لہذا ان کے آنے کے پہلے ہی یہ قرض لے لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG