پاکستان میں غربت کے خاتمے کے پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے حکومت نے 8 لاکھ سے زائد لوگوں کے نام خارج کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افراد پروگرام کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ دوسری جانب، پروگرام شروع کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی حکومتی فیصلے پر کڑی تنیقد کر رہی ہے۔
اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے، پیپلز پارٹی نے اسے وفاق میں برسر اقتدار تحریک انصاف کی مبینہ ’’عوام دشمن پالیسی‘‘ قرار دیا ہے۔
24 دسمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئے گئے فیصلے کے مطابق، ملک میں غربت کے خاتمے کے پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے حکومت نے مجموعی طور پر 8 لاکھ 20 ہزار 165 لوگوں کے نام خارج کرنے کی منظوری دے دی۔
حکام کے مطابق، یہ پروگرام معاشرے کے غریب ترین خاندانوں، بالخصوص خواتین کی معاشی کفالت کے لئے ہے، جس پر نکالے گئے افراد اس پروگرام کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔
حکام نے کہا ہے کہ اسکروٹنی سے پتا چلا ہے کہ پروگرام سے خارج کئے گئے افراد میں سے 1 لاکھ 53 ہزار افراد وہ ہیں جو کسی بھی مقصد کےلئے ملک سے باہر سفر کر چکے تھے۔ 1 لاکھ 95 ہزار سے زائد ایسے افراد پائے گئے جن کے شریک حیات نے بیرون ملک سفر کیا تھا۔ اور دس ہزار سے زائد لوگ ایسے بھی پائے گئے جنہوں نے ایک سے زائد بار ملک سے باہر سفر کیا۔ لیکن، وہ اس کے باوجود بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت وظیفہ حاصل کر رہے تھے۔
اسی طرح، بعض افراد چھ ماہ تک 1 ہزار روپے سے زائد ٹیلی فون یا موبائل کے بل بھی ادا کرتے رہے، جبکہ اس پروگروام سے مستفید ہونے والے 692 افراد کے نام گاڑیاں بھی رجسٹرڈ پائی گئیں۔ اسی طرح اس ان افراد کو بھی خارج کیا گیا ہے جنہوں نے قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنانے کے لئے ایگزیکٹو سینٹرز کی خدمات حاصل کی ہوں۔
وزیر اعظم کی خصوصی مشیر برائے تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق، اس پروگرام میں 1 لاکھ 42 ہزار سے زائد ایسے سرکاری ملازمین کی بھی نشاندہی ہوئی ہے جو خود یا ان کے شریک حیات وظائف لیتے رہے۔ ان میں حکومت کے مختلف محکموں کے علاوہ بڑی تعداد ریلوے اور پوسٹ آفس کے ساتھ انکم سپورٹ پروگرام میں ملازمت پیشہ ملازمین بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق، ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے جنہوں نے سسٹم کا غلط استعمال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پروگرام سے جن لوگوں کو نکالاگیا ہے حکومت ان افراد کی جگہ اصل مستحق لوگوں کو اس کا حصہ بنائے گی۔
انکم سپورٹ پروگرام سے ناموں کے اخراج پر پیپلز پارٹی کی تنقید
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پروگرام سے 8 لاکھ سے زائد خواتین کے ناموں کے اخراج پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام غربت کی شکار خواتین پر حملے کے مترادف ہے۔ حکومتی پالسیوں کا فائدہ صرف امرا کو پہنچایا جا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب ملک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بلاول بھٹو کے مطابق، یہ پروگرام کئی خواتین کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر اپنا فیصلہ واپس لے ورنہ ان کی جماعت ہر پلیٹ فارم پر اس کی بھرپور مخالفت کرے گی اور کسی صورت غریب اور خواتین دشمن پالیسیوں کو نافذ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے مطابق، حکومتی وزرا اور رہنماؤں نے اس سے قبل بھی کئی بار دعوے کئے جو بعد میں جھوٹے ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کامیاب پروگرام پر دنیا بھر میں پاکستان کی غربت کے خلاف کاوشوں کو سراہا جا رہا تھا اور عالمی مالیاتی ادارے بھی کھل کر اس پروگرام کی حمایت کرتے رہے، حکومت کو اس پروگرام کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت تھی۔ لیکن، اسے سمیٹا جا رہا ہے۔
تاہم، وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ان افراد کے نام کے اخراج میں سیاسی پسند ناپسند کا عمل دخل بالکل نہیں بلکہ خالصتاً تکنیکی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ایسے افراد کے اخراج سے حکومت کو 16 ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی، جبکہ پروگرام کو مزید شفاف بنانے اور اس پروگرام کے تحت وظائف حاصل کرنے والوں کی اسکروٹنی مزید سخت کرنے کے لئے پروگرام کو ڈیجیٹائز کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد، بقول حکام، بائیومیٹرک تصدیق کے بعد ہی مستحقین کو وظائف دئیے جا سکیں گے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیا ہے؟
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے شروع کیا تھا جس کا مقصد ملک سے غربت کا خاتمہ اور بالخصوص خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنا تھا۔ پروگرام کے تحت ملک بھر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تقریبا 52 لاکھ افراد کو سہ ماہی بنیادوں پر مالی امداد کی جاتی ہے۔ حال ہی میں اس امداد کو کابینہ نے افرط زر سے منسلک کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک میں مہنگائی بڑھنے پر امداد میں 500 روپے اضافہ کیا جائے گا۔
اس پروگرام کے تحت خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کی پانچ ہزار روپے کیش امداد کے علاوہ بعض مستحق افراد کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے پر 750 روپے کیش معاوضہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد 23 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر کی قومی و سماجی معاشی رجسٹری بھی تیار کی جا رہی ہے، جس کا کام آخری مراحل میں بتایا جاتا ہے۔۔ دستاویزات کے مطابق، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 2018-19 کے لئے سالانہ بجٹ 124 ارب روپے سے زائد رکھا گیا تھا۔
"بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شفافیت مسئلہ تھی"؛ ڈاکٹر قیصر بنگالی
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو تیار کرنے والے، اس کے پہلے سربراہ اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو جہاں حکومت کی تنگ نظری قرار دیتے ہیں، وہیں ان کے خیال میں معاملے میں یقیناً کچھ مسائل ضرور بھی پائے جاتے تھے اور اس کا سلسلہ تب شروع ہوا جب عالمی بینک کے کہنے پر اس مقصد کے لئے تیار کردہ کمپیوٹر پروگرام پر انحصار کے بجائے سروے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ شروع میں ڈیزائن کئے گئے اس پروگرام میں جو معیار سیٹ کیا گیا تھا اس پر پورا نہ اترنے والے شہری کو کمپیوٹر ہی مسترد کر دیتا تھا اور یوں غیر مستحق افراد کا پروگرام سے مستفید ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی اس میں یہ شرط شامل تھی کہ پروگرام کے تحت معاشی فائدہ اٹھانے والے افراد سرکاری ملازم یا پاسپورٹ کے حامل نہ ہوں۔
قیصر بنگالی نے بتایا کہ چونکہ یہ پروگرام بنیادی طور پر خواتین ہی کے لئے مختص تھا، اس پروگرام سے مستفید ہونے کے لئے خط غربت سے نیچے رہنے والے بہت سے خاندانوں کی خواتین نے شناختی کارڈ بنوائے۔ ان کے بینک اکاؤنٹس کھولے گئے، ان کا نام ووٹر لسٹوں میں شامل ہوا اور اس سے خواتین کو شناخت بھی ملی۔
قیصر بنگالی کے مطابق، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے سروے مکمل کرنے کے لئے عالمی بینک سے دو بڑے قرضے حاصل کئے گئے، جس کی ان کے خیال میں کوئی ضرورت نہیں تھی مگر بینک کو تو قرضے بیچنے تھے!!! سروے کا سلسلہ شروع ہوا تو کئی جگہوں پر لوگوں نے گاڑی کے بجائے سائیکل لکھوا دی اور یوں غیر مستحق افراد اس فہرست میں شامل ہونے لگے۔
تاہم، وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ سب افراد سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے سمیت کئی پارلیمنٹیرینز نے اس معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن اس کے باوجود معیار کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ اور اب بھی اس میں ذاتی عنصر کو ختم کرکے نادرا اور صوبائی حکومت کے پاس موجود ڈیٹا پر بھروسہ کیا جائے تو یہ نظام شفاف بنایا جاسکتا ہے۔