پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا قرض ملے گا۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کا پروگرام فائنل ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف 3 سال کے دوران پاکستان کو 6 ارب ڈالر قرض دے گا جبکہ بیل آؤٹ پیکیج ملنے کے بعد ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی ادارے مذید 3 ارب ڈالر کا قرضہ کم سود پر دیں گے۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا بنیادی کام معاشی بحران کے شکار ممالک کی مالی مدد کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ اب تک پاکستان 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکا تھا۔ تاہم اب آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد معیشت میں بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر دور میں برآمدات نہیں بڑھ سکیں جبکہ بہت سے معاملات پاکستان میں درست طریقے سے نمٹائے ہی نہیں گئے۔ ہمیں امیر طبقے کے لیے سبسڈی ختم کرنا ہو گی اور کچھ شعبوں میں قیمتیں بڑھانی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کو کچھ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھانا ہوں گی۔ بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی۔ تاہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ ماہانہ تین سو یونٹ استعمال کرنے والے بجلی کے صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور 216 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے عوامی منصوبے بھی جاری رکھے جائیں گے اور غربت میں کمی کے لیے 180 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر 39 ماہ میں قسطوں میں جاری ہوں گے۔ پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے اور اسے قرضوں کے بوجھ کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو قرضوں کا بوجھ اتارنا ہو گا اور ٹیکس آمدن بڑھانا ہو گی۔ پاکستان آئندہ بجٹ کے خسارے میں 0.6 فیصد کمی لائے گا۔ ڈالر کی قیمت مارکیٹ کے مطابق طے کرنے سے مالی شعبے میں بہتری آئے گی۔ پاکستان آئندہ 3 سال میں پبلک فنانسنگ کی صورتحال میں بھی بہتری لائے گا۔ ٹیکسوں کا بوجھ تمام شعبوں پر یکساں لاگو ہو گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو محصولات بڑھانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن سیکٹرز کو ٹیکس کی چھوٹ ہے وہ ختم کرنی ہو گی۔ کم آمدن والے افراد کے لئے بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کی رقم بڑھانی ہو گی۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ سبسڈی کم آمدنی کے افراد کو ملے۔ سٹیٹ بینک کو افراط زر کم کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اور ڈالر کی قدر کا تعین مارکیٹ کے ذریعے ہونا چاہئیے۔
آئی ایم ایف کے مطابق حکومت نے یقین دلایا ہے کہ سٹیٹ بینک اپنے فیصلے کرنے میں با اختیار ہو گا۔ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو گورننس بہتر کرنی ہو گی اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی ذرائع روکنے سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کا ماحول سازگار ہو گا۔ مالی امور میں نظم و ضبط لانے کے لئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
اس معاہدے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ آئی ایم ایف اپنی ہی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کر کے واپس چلی گئی ہے۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر پارلیمان میں بریفنگ دی جائے اور بتایا جائے کہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام ان مذاکرات میں کیوں شامل نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ کن شرائط پر ملک اور ادارے گروی رکھے جا رہے ہیں۔ اس معاہدے سے لگتا ہے کہ مہنگائی کی 'سونامی' آنے والی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مہنگائی کی یہ سونامی حکومت کو نہ لے ڈوبے۔
شیری رحمان نے کہا کہ ابھی سے بجلی مہنگی کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حکومت ترقیاتی و فلاحی منصوبوں کو بند کرنے جا رہی ہے۔ حکومت یاد رکھے کہ عام آدمی مزید مہنگائی برداشت نہی کر سکتا۔ شیری رحمان نے زور دے کر کہا کہ ہم اس عوام دشمن معاہدے کو نہیں مانتے۔