پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا آپریشن "خیبر ون" جاری ہے جب کہ علاقے کے مختلف حصوں سے سینکڑوں افراد محفوظ مقامات کی طرف منتقل بھی ہو رہے ہیں۔
قبائلی ذرائع کے مطابق تحصیل باڑہ کے مختلف علاقوں اکا خیل، ملک دین خیل، سپاہ اور قمبر خیل سے لوگ خیبر پختونخواہ کے مختلف حصوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں جنہیں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ علاقے میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر اسلام نے لوگوں کو نقل مکانی نہ کرنے کی تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بصورت دیگر ان کے گھروں پر شدت پسند قبضہ کر لیں گے یا انھیں تباہ کر دیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے ہی ہتھیار ڈال کر خود کو حکام کرنے والے متعدد شدت پسندوں کے گھروں کو بھی اس تنظیم نے بارودی مواد سے اڑا دیا تھا۔
خیبر ون میں ابھی تک درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور یہ کارروائی تاحال جاری ہے۔ مقامی حکام نے شدت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے تین دن کی مہلت دے رکھی ہے۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے شاہ فیصل آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا۔
"لوگوں کو کرفیو کی وجہ سے مشکلات ہیں اور پھر گاڑیاں بھی دستیاب نہیں ہیں۔۔۔ حکومت کو اگر آپریشن کرنا ہے کہ تو اسے چاہیے کہ جو لوگ یہاں آباد ہیں سب کو محفوظ مقامات پر منتقل کیاجائے اور پھر ایک مختصر مدت متعین کر کے جو حکومت کو اہداف حاصل کرنے ہیں وہ کر لے۔"
خیبر ایجنسی میں اس سے قبل بھی سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے اور اس دوران بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی۔
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی چار ماہ سے زائد عرصے سے جاری آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بھی لگ بھگ چھ لاکھ افراد نقل مکانی کر کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف حصوں میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔