رسائی کے لنکس

کیا جوڈیشل ایکٹوازم پاکستان کے مسائل کا حل ہے؟


چیف جسٹس ثاقب نثار، فائل فوٹو
چیف جسٹس ثاقب نثار، فائل فوٹو

پاکستان میں اس وقت زیادہ تر لوگ اپنے مسائل کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں یا پھر فوج کی جانب دیکھتے ہیں۔ اور ملک میں جو سیاسی حکومت ہے اس کی طرف رجوع کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

خاص طور پر سپریم کورٹ اس سلسلے میں خاصا سرگرم ہے اور متعدد معاملات پر از خود نوٹس لیتا ہے۔ چیف جسٹس کبھی لوگوں کی صاف پانی نہ ملنے کی شکایتوں پر کارروائی کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی اسپتالوں کے دورے کرکے مریضوں کا احوال جان کر اسپتالوں کی درستگی کے اقدامات کرتے ہیں۔

مبصرین اس صورت حال کو جوڈیشیل ایکٹوزم سے تعبیر کرتے ہیں جس کا آغاز بنیادی طور پر سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں ہوا تھا۔ پاکستان سپریم کورٹ بار کے سابق سربراہ کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک مثبت اور ایک منفی پہلو ہے۔

مثبت پہلو یہ ہے کہ اس بہانے لوگوں کے کام ہو جاتے اور منفی پہلو یہ ہے کہ ملک کا جو مروجہ سیاسی نظام ہے اس کی طرف لوگ نہیں دیکھتے بلکہ دوسری جانب دیکھتے ہیں۔ اس لئے یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ طویل مدت کے حوالے سے ہمارے نظام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ یہ سیاسی نظام سے انحراف ہو رہا ہے جو غیر مناسب ہے۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ افتخار چوہدری نے اپنے دور میں جس طرح از خود نوٹس لئے اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔

ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ اقبال کا کہنا تھا کہ جو متعلقہ ادارے ہیں جب وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہیں گے۔ جب نظام میں خلاء پیدا ہو جائے گا ۔ جب اس عمرانی معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو گا جو نظام اور عوام کے درمیان ہوتا ہے تو ظاہر ہے لوگ متبادل تلاش کریں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس صورت حال میں اداروں کے درمیان تصادم کا کوئی امکان ہے تو انہوں نے کہا اس وقت تو اس کا کوئی امکان نہیں کیونکہ آئندہ چند روز میں ایک نگراں حکومت بن جائے گی اور ظاہر ہے کہ اس کا روزمرہ کے انتظامی معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو گا اس لئے کسی تصادم کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

اس بارے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے متعدد ارکان سے رابطہ قائم کرکے ان کا نقطہ نظر معلوم کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے پر آمادہ نہ تھا۔

مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

پاکستان میں جاری جوڈیشل ایکٹوازم اور سوالات
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

XS
SM
MD
LG