خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر بنوں سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے جانی خیل کے قبائلیوں نے حکومت کے ساتھ ایک اور معاہدہ طے پانے کے بعد اتوار کی سہہ پہر کو 31 مئی سے جاری احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
احتجاجی دھرنے کے خاتمے پر اب مظاہرین بنوں کے باران کے تبلیغی مرکز سے جانی خیل واپسی کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔ جانی خیل قومی جرگہ کے ممبر ملک حبیب خان نے وائس آف امریکہ کو حکومت کے ساتھ نیا معاہدہ طے پا جانے اور احتجاجی دھرنے کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملک نصیب خان، جن کی لاش مظاہرے میں رکھی تھی، کی تجہیز و تکفین جانی خیل واپس پہنچنے کے بعد اتوار کی رات کو ہوگی ۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے جاری کردہ بیان میں جانی خیل قبائل کے ساتھ مذاکرات کی ان کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے اسے حکومت اور امن کی کامیابی قرار دیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد وزیر کے سربراہی میں ایک اعلی سطحی وفد نے جانی خیل قومی جرگہ کے ساتھ احمد زئی وزیر اور اتمانزئی وزیر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ مشران پر مشتمل ایک مصالحتی جرگہ کے ذریعے مذاکرات کئے۔
ان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز چار روز قبل اس وقت ہوا جب مظاہرین نے اسلام آباد دھرنا منتقل کرنے کے لئے سفر کا آغاز کیا اور ان مظاہرین کو روکنے کے لئے پولیس اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی رپورٹس سامنے آئیں جن میں ایک شخص کے ہلاک اور ایک درجن افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
اسلام آباد جانے سے روکنے کے بعد مظاہرین نے لاش سمیت بنوں شہر سے باہر باران کے ایک تبلیغی مرکز میں پڑاؤ ڈالا۔
ملک حبیب خان اور مشیر اطلاعات کامران بنگش کے مطابق علاقے میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے اتمانزئی و احمد زئی اقوام پر مشتمل سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ جرگہ نہ صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تجاویز پیش کرے گا بلکہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر علاقے سے ان مشتبہ نقاب پوش اور مسلح افراد کو نکالنے کے لئے حکمت عملی وضع کرے گا جو مبینہ طور پر دہشت گردی، بالخصوص گھات لگا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
اس فیصلے کے تحت سابقہ معاہدہ پر عمل در آمد میں جو کمی درپیش تھی، اب اسے پورا کیا جائے گا۔
نئے معاہدے کے تحت حکومت نے تمام قیدی رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور قتل کے واقعات کی تحقیقات بھی کرائی جائیں گی۔ ملک حبیب خان نے بتایا کہ آج حکام نے جبری طور پر گمشدہ چار افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول اب بھی جانی خیل سے تعلق رکھنے والے 53 افراد مبینہ طور پر مختلف حفاظتی مراکز میں بند ہیں اس معاہدے کے بعد حکومت ان افراد کو آئندہ چند دنوں میں را کرے گی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد وزیر نے بھی جاری کردہ بیان میں لگ بھگ 54 گرفتار افراد کی رہائی کے بارے میں اطلاع دی ہے۔
معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ لانگ مارچ کے وقت ہونے والے تمام نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔
بنوں س تعلق رکھنے والے صحافی محمد وسیم خان کا کہنا ہے کہ دھرنے کے بعض شرکا مذاکرات اور معاہدے سے انکاری ہیں اور دھرنا ختم نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم، ملک حبیب خان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے تحفظات کا احترام کیا جا رہا ہے مگر قومی جرگہ کے متفقہ فیصلے سے کسی کو بھی انکار نہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے اتوار کے روز جاری کردہ بیان میں کہا کہ دھرنے کے خاتمے کے لئے وزیراعلی خیبرپختونخوا نے صوبائی وزیر شاہ محمد کی سربراہی میں حکومتی جرگہ قائم کیا اور کئی دنوں کی کاوشوں سے دھرنا شرکا کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے۔
کامران بنگش نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں بننے والا یہ جرگہ حالیہ دھرنے کے شرکا کو پیش آنے والے مشکلات دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے جانی خیل قبائل کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور دھرنے کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج عوام، صوبائی حکومت اور وزیراعلی محمود خان کی کوششوں سے امن کی جیت ہوئی ہے اور امن دشمن عناصر کو شکست کا سامنا ہوا۔