خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ضلع بنوں سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے جانی خیل میں قبائلی رہنما ملک نصیب خان وزیر کے مبینہ قتل کے خلاف دھرنا دو ہفتوں سے جاری ہے۔ عمائدین نے 10جون تک یہ دھرنا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
جانی خیل قومی جرگہ میں شامل ملک عمر زالی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جرگے نے متفقہ طور پر 10جون کو دھرنا اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما اور جرگے میں شامل ملک معوز خان وزیر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ آٹھ روز گزر جانے کے باوجود حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اس لیے 10جون کو دھرنا اسلام آباد منتقل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
ملک معوز خان کا کہنا ہے کہ 28 مارچ کو ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کرانا حکومت کا فرض ہے اور اس معاہدے میں ایک ہی اہم مطالبہ امن ہے۔
شدید گرمی کے باعث ملک نصیب خان کی لاش کے ساتھ صبح سویرے سات بجے سے گیارہ بجے اور شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے۔
احتجاجی دھرنے میں جانی خیل، بکا خیل، شمالی وزیرستان اور بنوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہیں۔
دھرنے کا پس منظر
جانی خیل قومی جرگہ میں شامل اور قوم پرست قومی وطن پارٹی کے رہنما ملک نصیب خان وزیر کو 30 مئی اتوار کی شام نامعلوم حملہ آوروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
جانی خیل قومی جرگہ میں شامل 60 سالہ ملک نصیب کو نقاب پوش مسلح افراد نے جانی خیل کے گاؤں زندی علی خیل میں گولیاں مارکر قتل کردیا تھا۔
ملک نصیب خان کو ہلاک کرنے کے بعد حملہ آور ان کی کلاشنکوف، موبائل فون اور نقد رقم لے کر فرار ہو گئے تھے۔
پوسٹ مارٹم کے بعد مقامی لوگوں اور رشتے داروں نے تدفین کے بجائے لاش سمیت دھرنا دے دیا جو ابھی تک جاری ہے۔
ملک نصیب خان رواں سال مارچ میں علاقے میں بگڑتی ہوئی امن وامان کے صورتِ حال پر حکومت کے خلاف ہونے والے جانی خیل دھرنے کے سرکردہ رہنما تھے اور 28 مارچ کو قبائلی قومی جرگہ اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے پر انہوں نے بھی دستخط کیے تھے۔
گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات
اس معاہدے میں حکومت نے علاقے سے ان عسکریت پسندوں کو نکالنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا جو قبائلیوں کے بقول گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
ملک نصیب خان کی ہلاکت سے قبل فرنٹیئر کور بلوچستان سے تعلق رکھنے والا اہلکار جو عیدالفطر کی چھٹیوں پرآیا ہوا تھا کو نامعلوم افراد نے گھات لگا کر قتل کردیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف مقامی لوگوں نے دھرنا دیا تھا تاہم حکام کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں بالخصوص 28 مارچ کو جانی خیل قبائل اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد گھات لگا کر قتل کے دو واقعات ہوئے ہیں۔
’تصفیہ جانی خیل‘
مارچ کےاوائل میں چار کمسن لڑکوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنے کے بعد قبائلیوں نے میتوں سمیت تقریباً نو روز تک احتجاجی دھرنا دیا تھا جس کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان نے دیگر وزرا اور اعلیٰ سول اور پولیس عہدیداروں کے ہمراہ قبائلیوں سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں وزیر اعلیٰ نے دھرنے کے مطالبات تسلیم کیے تھے اوران کے ساتھ بنوں انتظامیہ کے ذریعے ایک تحریری معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے اس معاہدے کو’تصفیہ جانی خیل امن و امان‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس معاہدے پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنوں اور جانی خیل قبیلے کے 13 رہنماؤں اور مصالحتی جرگہ میں شامل چھ اراکین نے دستخط کیے تھے۔
معاہدے میں مختلف قبائلی علاقوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی کردار ادا کیا تھا۔
خیبر پختونخوا کی حکومت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جانی خیل میں امن وامان یقینی بنائے گی اور علاقے سے ہر قسم کے مسلح گروہوں کا صفایا کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ پرامن لوگوں کے گھروں سے اسلحہ ضبط نہیں کیا جائے گا اور امن کی بحالی میں کسی گھر کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔
دھرنے کے شرکا اور حکومت کا مؤقف
دھرنے میں شامل ملک عمر زالی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ ابھی تک نہ تو حکومت نے 28 مارچ کو ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا ہے اور نہ ہی پچھلے ایک ہفتے کے دوران جاری احتجاجی دھرنا ختم کرنے کے لیے کسی نے رابطہ کیا ہے۔
چند روز قبل خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے کہا تھا کہ ملک نصیب خان کو ذاتی دشمنی کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔
کامران بنگش کے اس بیان پر جانی خیل قبائل نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب سماجی بہبود کے صوبائی وزیر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ سول انتظامیہ اور ضلعی پولیس افسر کے ذریعے جانی خیل قبائل کے ساتھ ان کا رابطہ ہوا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ان کے مسائل اور مطالبات کا حل تلاش کیا جائے۔
کسے روکا اور کسے جانے دیا؟
احتجاجی دھرنا شروع ہوتے ہی سب سے پہلے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے بانی رہنما اور شمالی وزیرستان سے رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جانی خیل جاکر گزشتہ منگل کو دھرنے میں شرکت کی اور مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور نے بھی اسی دن احتجاجی دھرنے سے خطاب کیا تھا۔
تاہم جمعرات کی رات جب پشتون تحفظ تحریک کے بانی منظور پشتین تین ساتھیوں سمیت کوہاٹ کے راستے جانی خیل جا رہے تھے تو انہیں خوشحال گڑھ کے مقام پر گرفتار کر کے کئی گھنٹے زیرِ حراست رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
بنوں پولیس کے اہل کاروں نے منظور پشتین کو جانی خیل جانے سے روک دیا اور جمعے کی رات واپس صوبۂ پنجاب کی حدود میں پہنچا دیا تھا۔
دو دن پہلے قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر حیات شیرپاؤ اور اس سے قبل قبل سابق سینیٹر باز محمد خان خٹک کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک وفد کو بھی جانی خیل جانے سے روک دیا گیا تھا۔
قومی وطن پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر سکندر حیات خان شیرپاؤ نے تصدیق کی کہ چند روز قبل انہیں ساتھیوں سمیت بنوں لنک روڈ ہی پر جانی خیل جانے سے روک کر واپس بھیج دیا گیا تھا۔
انہوں نے حکومت سے مظاہرین کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بنوں سے جانی خیل تک سڑک پر پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔
سڑک پر مختلف مقامات پر کنٹینرز رکھ دیے گئے ہیں اور بنوں سے شمالی وزیرستان آنے جانے والوں کی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔