پاکستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ بچوں سمیت تین خواتین کے شام جا کر ’داعش‘ میں شمولیت سے متعلق معلومات کے بارے میں تفتیش کا عمل جاری ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ تین خواتین بچوں سمیت شام پہنچ گئی ہیں۔
لاہور کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس حیدر اشرف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خواتین کے لاپتا ہونے سے متعلق پولیس تھانے میں ایک رپورٹ درج کروائی گئی تھی۔ لیکن اب ان خواتین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ شام پہنچ گئی ہیں۔’’ہم اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ایک خاتون کے ساتھ بچے بھی ہیں۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق ایک خاتون کا نام بشریٰ بتایا گیا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور لاہور میں ایک مذہبی ادارے میں اعزازی پرنسپل تھیں۔
لیکن پولیس کی طرف سے شام جانے والی خواتین کے ناموں کی تصدیق نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے محکمے نے انکشاف کیا تھا کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ اور ارد گرد کے علاقوں سے شدت پسند گروہ ’داعش‘ سے وابستہ نو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
’کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ‘ یعنی (سی ٹی ڈی) کے ایک ترجمان نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا تھا کہ جس گروہ کو گرفتار کیا گیا اُنھوں نے رواں سال ’داعش‘ کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے وفاداری کا حلف لیا تھا۔
دریں اثنا پاکستانی وزات خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز ’داعش‘ کے خطرے سے آگاہ ہیں۔
’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز اس خطرے سے آگاہ ہیں۔ اُنھوں نے کارروائی کی اور تفتیش جاری ہے۔ لیکن یہ کچھ افراد ہیں جنہوں نے خود کو داعش سے وابستہ کیا، اس تنظیم کی پاکستان میں منظم موجودگی نہیں ہے۔‘‘
قاضی خلیل اللہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’داعش‘ کا ملک میں کوئی وجود نہیں ہے اور اس تنظیم کا ملک میں سایہ تک نہیں پڑنے دیا جائے گا۔
اُدھر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کو سینیٹ میں ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے بعض صوبوں میں ’داعش‘ کی موجودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا اگر افغانستان میں امن کا عمل کامیاب ہوتا ہے تو پھر مل کر ’داعش‘ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
’’اگر یہ عمل کامیاب ہوتا ہے تو اُس سے ایک مشترکہ فرنٹ کے طور پر داعش سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے چار پانچ صوبے جو ہماری سرحد کے ساتھ ہی شروع ہو کر بدخشاں تک جاتے ہیں وہاں داعش کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔۔۔‘‘۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ایک روز قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر افغانستان میں امن مصالحت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دوطرفہ سرحد کی نگرانی بہتر بنائی جائے تو ’داعش‘ کے خطرے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔