پاکستان کی وفاقی کابینہ نے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے چینی کرنسی میں بانڈز جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
اس بات کا فیصلہ جمعرات کو وزیرِ اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق پاکستان نے 'پانڈا بانڈز' جاری کرنے کا فیصلے چینی مالیاتی اداروں، سرمایہ کار کمپنیوں اور چین کی اسٹاک ایکسچینج سے متعلق افراد سے بات چیت کے بعد کیا ہے۔
جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بانڈز چینی کرنسی رینمنبی (آر ایم بی) یعنی یوان میں جاری کیے جائیں گے۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق ان بانڈز کا حجم 50 کروڑ سے ایک ارب امریکی ڈالر کے مساوی ہو سکتا ہے۔
تاہم ترجمان نے ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا اور کہا کہ ان بانڈز کی مجموعی مالیت کا تعلق چینی مارکیٹ اور چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی پر منحصر ہے۔
خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ ان بانڈز کو جاری کرنے کا مقصد دیگر کرنسیوں کے ساتھ ساتھ چینی کرنسی میں بھی سرمایہ حاصل کرنا ہے اور پانڈا بانڈز سے حاصل ہونے والی چینی کرنسی پاک چین تجارت میں استعمال ہو سکے گی۔
ترجمان نے بتایا کہ یہ بانڈز رواں مالی سال میں چینی مارکیٹ میں جاری کر دیے جائیں گے اور ان کی کم سے کم مدت تین سال ہو گی۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے چینی کرنسی کے بانڈز کے اجرا سے یوان میں مالی وسائل حاصل ہو سکیں گے جو چینی درآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوں گے۔
اقتصادی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق مشیرِ خزانہ سلمان شاہ نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ایک بڑا حصہ چینی برآمدات کا ہے اور ان برآمدات کے لیے اگر چینی بانڈز کے ذریعے یوان (چینی کرنسی) حاصل ہوجاتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کی ادائیگیوں کی توازن کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
چین پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارے کا حجم تقریباً 10 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
سلمان شاہ کے بقول پانڈا بانڈز جاری کرنے کے فیصلے کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی خسارے سے نمٹنے کے لیے چینی کرنسی حاصل کرنا ہے۔
پاکستان نے چینی کرنسی میں بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب پاکستان کو اس وقت 12 ارب ڈالر کے مالیاتی خسارے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے دوست ملکوں کے علاوہ آئی ایم ایف سے بھی بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی ہے۔