اسلام ٓباد —
وفاقی وزیر برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کرنے پر پاکستان کو بین الاقوامی اور بالخصوص امریکی تعزیرات کا سامنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تہران سے کہا گیا ہے کہ اربوں ڈالرز کے گیس پائپ لائن کے معاہدے کا دوبارہ جائزہ لے کر اس منصوبے ہر عمل درآمد کو ایران پر عائد تعزیرات کے خاتمے سے منسلک کر دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے تین ماہ کے اندر اندر پاکستان گیس درآمد کرنے کے لیے تیار ہوگا۔
’’ڈیزائن تیار ہوگیا ہے، جگہ کی حدبندی ہوگئی ہے، زمین کل سے حاصل کرنا شروع ہو جائے گی لیکن مسئلہ پابندیوں کا ہے۔ پس اس کے نتیجے میں منصوبے کے لیے پیسہ نہیں ملے گا، کوئی ٹھیکدار نہیں آئے گا۔ یہان تک کہ کمپریشن ایکوپمنٹ نہیں ملے گے۔ آپ پائیپ لائن بنا بھی لیتے ہیں۔ جس وقت گیس وہاں سے لی آپ پر پابندیاں عائد ہوجائیں گی۔‘‘
وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا کہ ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات میں بھی ایران نے گیس کی برآمد پر پابندیاں ہٹانےکا مطالبہ نہیں کیا ہے۔
امریکی کانگرس نے ایران پر تعزیرات عائد کی ہیں جو خاقان عباسی کے بقول اگر اوباما انتظامیہ کی طرف سے ہوتیں تو ان سے چھوٹ حاصل کرنا پاکستان کے لیے قدرے آسان ہوتا۔
پائپ لائن معاہدے کے تحت اگر پاکستان نے جنوری 2015 سے ایران سے گیس درآمد نا کی تو اسلام آباد کو 30 لاکھ ڈالرز یومیہ تک کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کے ماہرین کے مطابق ملک کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا کہ ملک میں مائع قدرتی گیس یعنی ایل این جی کی درآمد کے لیے کراچی میں پورٹ قاسم پر ٹرمینل نومبر تک تیار ہوجائے گا اور حکومت، قطر کے علاوہ عالمی منڈی سے بھی گیس خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان کے مطابق درمیانی مدت کے لیے پاکستان کے توانائی بحران کا حل مائع قدرتی گیس کی درآمد ہی سے ممکن ہے۔
’’اگر اس وقت ہم اپنے گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کو مکمل طور پر گیس فراہم کریں اور کوئی نیا پلانٹ بھی نا لگائیں تو ہمارے یہاں لوڈشیڈنگ 50 فیصد کم ہوجائے گی۔ ہمارے یہاں گیس کی پیداوار میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔ نئے ذخائر ملیں بھی تو پرانے کی پیداوار کم ہو رہی ہوتی ہے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی شعبے میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو توانائی شعبے میں موثر اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے جن میں توانائی کے نئے وسائل پیدا کرنا، غیر منصافانہ مراعات کا خاتمہ اور متعلقہ اداروں کی کارکرادگی فعال بنانا ضروری ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تہران سے کہا گیا ہے کہ اربوں ڈالرز کے گیس پائپ لائن کے معاہدے کا دوبارہ جائزہ لے کر اس منصوبے ہر عمل درآمد کو ایران پر عائد تعزیرات کے خاتمے سے منسلک کر دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے تین ماہ کے اندر اندر پاکستان گیس درآمد کرنے کے لیے تیار ہوگا۔
’’ڈیزائن تیار ہوگیا ہے، جگہ کی حدبندی ہوگئی ہے، زمین کل سے حاصل کرنا شروع ہو جائے گی لیکن مسئلہ پابندیوں کا ہے۔ پس اس کے نتیجے میں منصوبے کے لیے پیسہ نہیں ملے گا، کوئی ٹھیکدار نہیں آئے گا۔ یہان تک کہ کمپریشن ایکوپمنٹ نہیں ملے گے۔ آپ پائیپ لائن بنا بھی لیتے ہیں۔ جس وقت گیس وہاں سے لی آپ پر پابندیاں عائد ہوجائیں گی۔‘‘
وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا کہ ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات میں بھی ایران نے گیس کی برآمد پر پابندیاں ہٹانےکا مطالبہ نہیں کیا ہے۔
امریکی کانگرس نے ایران پر تعزیرات عائد کی ہیں جو خاقان عباسی کے بقول اگر اوباما انتظامیہ کی طرف سے ہوتیں تو ان سے چھوٹ حاصل کرنا پاکستان کے لیے قدرے آسان ہوتا۔
پائپ لائن معاہدے کے تحت اگر پاکستان نے جنوری 2015 سے ایران سے گیس درآمد نا کی تو اسلام آباد کو 30 لاکھ ڈالرز یومیہ تک کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کے ماہرین کے مطابق ملک کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا کہ ملک میں مائع قدرتی گیس یعنی ایل این جی کی درآمد کے لیے کراچی میں پورٹ قاسم پر ٹرمینل نومبر تک تیار ہوجائے گا اور حکومت، قطر کے علاوہ عالمی منڈی سے بھی گیس خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان کے مطابق درمیانی مدت کے لیے پاکستان کے توانائی بحران کا حل مائع قدرتی گیس کی درآمد ہی سے ممکن ہے۔
’’اگر اس وقت ہم اپنے گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کو مکمل طور پر گیس فراہم کریں اور کوئی نیا پلانٹ بھی نا لگائیں تو ہمارے یہاں لوڈشیڈنگ 50 فیصد کم ہوجائے گی۔ ہمارے یہاں گیس کی پیداوار میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔ نئے ذخائر ملیں بھی تو پرانے کی پیداوار کم ہو رہی ہوتی ہے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی شعبے میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو توانائی شعبے میں موثر اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے جن میں توانائی کے نئے وسائل پیدا کرنا، غیر منصافانہ مراعات کا خاتمہ اور متعلقہ اداروں کی کارکرادگی فعال بنانا ضروری ہیں۔