اسلام آباد —
پاکستان اور ایران نے طویل عرصے سے تعطل کے شکار گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے منصوبے کے تحت ایران کے جنوب میں پارس گیس فیلڈ کے ذخائر سے پاکستان کو قدرتی گیس برآمد کی جائے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے اس اہم منصوبے کی تکیمل کی راہ میں حائل چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر روابط اور تعاون پر بھی دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ گیس درآمد کے منصوبے پر یہ پیش رفت تہران میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور اُن کے ایرانی ہم منصب بائیجان نمدار زینگین کے درمیان ملاقات میں ہوئی۔
دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ایران اور پاکستان کے ماہرین جلد ہی ملاقات کر کے گیس پائپ لائن کے اس منصوبے پر کام تیز کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیں گے۔
شاہد خاقان عباسی اور اُن کے ہمراہ جانے والے دیگر عہدیداروں نے ایران کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اسلام آباد گیس درآمد کے اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گا کیوں کہ یہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر یہ پیش رفت حالیہ ہفتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی اُس تبدیلی کے بعد ہوئی ہے جس میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس منصوبے کو کب تک مکمل کیا جائے گا۔
رواں سال مارچ میں پاکستان اور ایران کے دو سابق صدور آصف علی زرداری اور محمود احمدی نژاد نے اپنے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں ایران کے سرحدی علاقے گبد میں اس گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
بظاہر اس منصوبے پر کام اس لیے بھی تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکا کیوں کہ یہ خدشہ تھا کہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے باعث پاکستان بھی اُن بین الاقوامی تعزیرات کی زد میں آ سکتا ہے جو بین الاقوامی برادری بشمول امریکہ نے تہران کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر عائد کر رکھی ہیں۔
لیکن اب جوہری پروگرام سے متعلق تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان عبوری معاہدہ طے پانے کے بعد ایران کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی متوقع ہے۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی تحفظات کے باوجود ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ ان کے بقول یہ منصوبہ ’ملکی مفاد‘ میں ہے۔
اگر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اس منصوبے پر کام جاری رہتا تو پاکستان کو دسمبر 2014ء میں ایران سے گیس ملنا شروع ہو جاتی، دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو ملک منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنا اُسے بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔
پاکستان کو درپیش توانائی کے شدید بحران کے باعث حکام اور سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی صنعت بری طرح متاثر ہوئی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
توانائی کے اس بحران پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت نے کئی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہے جن میں ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں جب کہ امریکہ بھی اس شعبے میں پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور واشنگٹن کے تعاون سے جاری منصوبوں کی باعث رواں سال کے اختتام پر پاکستان کے قومی گرڈ میں لگ بھگ 900 میگا واٹ اضافی بجلی شامل ہو سکے گی۔
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے منصوبے کے تحت ایران کے جنوب میں پارس گیس فیلڈ کے ذخائر سے پاکستان کو قدرتی گیس برآمد کی جائے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے اس اہم منصوبے کی تکیمل کی راہ میں حائل چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر روابط اور تعاون پر بھی دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ گیس درآمد کے منصوبے پر یہ پیش رفت تہران میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور اُن کے ایرانی ہم منصب بائیجان نمدار زینگین کے درمیان ملاقات میں ہوئی۔
دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ایران اور پاکستان کے ماہرین جلد ہی ملاقات کر کے گیس پائپ لائن کے اس منصوبے پر کام تیز کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیں گے۔
شاہد خاقان عباسی اور اُن کے ہمراہ جانے والے دیگر عہدیداروں نے ایران کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اسلام آباد گیس درآمد کے اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گا کیوں کہ یہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر یہ پیش رفت حالیہ ہفتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی اُس تبدیلی کے بعد ہوئی ہے جس میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس منصوبے کو کب تک مکمل کیا جائے گا۔
رواں سال مارچ میں پاکستان اور ایران کے دو سابق صدور آصف علی زرداری اور محمود احمدی نژاد نے اپنے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں ایران کے سرحدی علاقے گبد میں اس گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
بظاہر اس منصوبے پر کام اس لیے بھی تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکا کیوں کہ یہ خدشہ تھا کہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے باعث پاکستان بھی اُن بین الاقوامی تعزیرات کی زد میں آ سکتا ہے جو بین الاقوامی برادری بشمول امریکہ نے تہران کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر عائد کر رکھی ہیں۔
لیکن اب جوہری پروگرام سے متعلق تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان عبوری معاہدہ طے پانے کے بعد ایران کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی متوقع ہے۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی تحفظات کے باوجود ایران سے گیس درآمد کے اس منصوبے پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ ان کے بقول یہ منصوبہ ’ملکی مفاد‘ میں ہے۔
اگر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اس منصوبے پر کام جاری رہتا تو پاکستان کو دسمبر 2014ء میں ایران سے گیس ملنا شروع ہو جاتی، دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو ملک منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنا اُسے بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔
پاکستان کو درپیش توانائی کے شدید بحران کے باعث حکام اور سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی صنعت بری طرح متاثر ہوئی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
توانائی کے اس بحران پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت نے کئی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہے جن میں ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں جب کہ امریکہ بھی اس شعبے میں پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور واشنگٹن کے تعاون سے جاری منصوبوں کی باعث رواں سال کے اختتام پر پاکستان کے قومی گرڈ میں لگ بھگ 900 میگا واٹ اضافی بجلی شامل ہو سکے گی۔