پاکستان اور امریکہ کےتعلقات عشروں کی نچلی ترین سطح پرپہنچ چکے ہیں۔ اور اِس بگاڑ کا مداوا کرنے کے لیے ممکنہ متبادل ساجھے دارکے طور پر پاکستان نے چین اور ایران سے رابطےبڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم ، جیسا کہ’ وائس آف امریکہ‘ کے ولیم آئدی نے واشنگٹن میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ دونوں ممالک پاکستان کے لیے کتنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں، اِس بارے میں تجزیہ کار وں کو تحفظات ہیں۔
اس سال کے اوائل میں پاکستان میں کی جانے والی امریکی کمانڈو کارروائی جس میں اسامہ بن لادن ہلاک ہوئے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکہ کی فتح تھی۔ تاہم، یہ پاکستان کےساتھ تعلقات کےلیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
اِن تعلقات میں مزید کشیدگی گذشتہ ماہ تب آئی جب سبک دوش ہونے والے اعلیٰ امریکی عہدے دار ایڈمرل مائیک ملن نے پاکستان کی انٹیلی سروس پر افغانستان میں مذہبی باغیوں سے گٹھ جوڑ کا الزام لگایا۔
اور اب جب کہ پاکستان ایران اور چین کے ساتھ تجارت اور سکیورٹی کے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے، اِس سے امریکہ پاکستان تعلقات کے مستقبل کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں۔
الیکس وتنکا، واشنگٹن میں قائم ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت بہت کچھ ہو رہا ہے، کیونکہ بن لادن کی ہلاکت اور اِس سوال پر کہ وہ پاکستان میں کیونکر تھے اوراُن کو تلاش کیوں نہیں کیا گیا، پاکستان امریکہ تعلقات کو بہت متاثر کیا ہے۔
پاکستان اور ایران اپنی تجارت کو ہر سال 10ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم، یہ کرنے کےلیے ضروری ہے کہ سڑکوں، ریل اور فضائی رابطوں میں بہتری لائی جائے۔
الیکس وتنکا کا کہنا ہے کہ یہ بات واقعی حیران کُن ہے کہ تقریباً 17کروڑ آبادی والے پاکستان کی سات کروڑ آبادی کے ملک ایران کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم تقریباً ایک ارب ڈالر ہے۔ یہ تجارت اُس سے بھی کم ہے جتنی ایران افغانستان کے ساتھ کرتا ہے، جو پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے۔
پاکستان کو توانائی کی سخت ضرورت ہے۔ بجلی کا بار بار بند ہونا مستقل تشویش کا باعث ہے۔ اپنی حالیہ ملاقاتوں میں ایرانی اور پاکستانی عہدے داروں نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ امریکہ کے اعتراضات کے باوجود، قدرتی گیس پائپ لائن کی تعمیر کے کام کو تیز کیا جائے گا۔
منصوبے کو سکیورٹی کےچیلنج بھی لاحق ہیں۔
الیکس وتنکا کا کہنا ہے کہ ایران سے پاکستان آنے والی اِس پائپ لائن کےلیے حائل ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے ایسے خطوں سے گزرے گی جو انتہائی غیر مستحکم ہیں۔
صرف گذشتہ ماہ ہی بلوچستان میں ہونے والے ایک حملے میں ایران جانے والے20شیعہ زائرین ہلاک ہوئے۔
پاکستان کی سلامتی اور استحکام چین کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ گذشتہ ہفتے، چین کے عوامی سلامتی کے وزیر مینگ جیانزو نے اسلام آباد کا دورہ کیا جس میں اُنھوں نے چین کی طر ف سے یہ تشویش کا معاملہ اٹھایا کہ اسلامی عسکریت پسند چین پر حملے کرنے کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
جوناتھن پولک واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ چین کو پاکستان، اُس کا استحکام اور صورت حال سے مؤثر طریقے سے نبردآزما ہونے کی موجودہ قیادت کی صلاحیت کے بارے میں خدشات لاحق ہیں۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے استحکام سے متعلق چین کی تشویش کافی حد تک امریکی تشویش کی طرح ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کےخیال میں اندرونِ ملک لوگوں کوخوش کرنے کی کوشش میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اُنھیں اب بھی چین کی حمایت حاصل ہے اور یہ کہ یہ تعلقات امریکہ سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، تاہم اُنھیں بخوبی علم ہے کہ جب اُن کے حالات بگڑتے ہیں تو چین اُن کی مالی ا مداد نہیں کرپائے گا۔
چین کی بھارت کے ساتھ تجارت سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان چین معاشی تعلقات کس حد تک آگے بڑھ سکتے ہیں۔
جوناتھن پولک کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان مسابقت اور دشمنیوں کی داستان سے ہٹ کر دیکھا جائے تو چین بھارت سے دس گنا زیادہ تجارت کرتا ہے، جتنی کہ اُس کی پاکستان کے ساتھ تجارت ہے۔
اب بھی، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا کوئی عندیہ نہیں ہے کہ چین پاکستان کو چھوڑ دے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ اِس بات کا مزید جائزہ لے کہ پاکستان میں میسر آنے والےمواقع اور لاحق خطرات کیا ہوسکتے ہیں۔