اسلام آباد —
پاکستان کو جہاں دہشت گردی و انتہا پسندی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے وہیں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بھی ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رواں ماہ اب تک سنی اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تین مذہبی رہنماؤں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جب کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد سے ملحق شہر راولپنڈی میں عاشور کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم میں کم ازکم 11 افراد کی ہلاکت اور املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچنے کے لیے علاوہ پورے ملک میں ان دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
ایسے واقعات کے تدارک اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار یوسف نے سرکاری ذرائع ابلاغ سے اس کمیشن کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام برداشت اور قربانی کا درس دیتا ہے اور یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں امن و ہم آہنگی کے لیے کام کرے۔
کمیشن کے قیام اور اس کے ضابطہ کار سے متعلق تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔
ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور مختلف مسالک کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نیا نہیں۔ اس سے قبل سے بھی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فرقے کی بنیاد پر شرپسندی کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی اور اس پر موثر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمان کو اس ضمن میں سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔
’’ایسے ضابطے آپ چاہے جتنے بنا لیں لیکن جب تک حکومت اس کو قانونی شکل نہ دے اس وقت تک تو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر مذہبی رواداری کی فضا کو جو خراب کر رہا ہے اگر حکومت اس کے خلاف ایکشن نہیں لے گی تو جتنی مرضی آپ محنت کر لیں وہ ومحنت ایک واقعے سے ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کے علما کے ساتھ مل کر ایک عوامی رابطہ مہم شروع کی جارہی ہے۔
مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علما اور رہنما ہم آہنگی پر زور دیتے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود صورتحال میں کوئی خاطر خواہ بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ حال ہی میں پیش آنے والے واقعات کے بعد پرزور انداز میں یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے کہ ایک دوسرے کے مسلک اور فرقے کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور تحریری مواد پر پابندی کے علاوہ اس میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں امن و امن کا قیام ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو مل کر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
رواں ماہ اب تک سنی اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تین مذہبی رہنماؤں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جب کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد سے ملحق شہر راولپنڈی میں عاشور کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم میں کم ازکم 11 افراد کی ہلاکت اور املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچنے کے لیے علاوہ پورے ملک میں ان دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
ایسے واقعات کے تدارک اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار یوسف نے سرکاری ذرائع ابلاغ سے اس کمیشن کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام برداشت اور قربانی کا درس دیتا ہے اور یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں امن و ہم آہنگی کے لیے کام کرے۔
کمیشن کے قیام اور اس کے ضابطہ کار سے متعلق تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔
ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور مختلف مسالک کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نیا نہیں۔ اس سے قبل سے بھی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فرقے کی بنیاد پر شرپسندی کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی اور اس پر موثر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمان کو اس ضمن میں سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔
’’ایسے ضابطے آپ چاہے جتنے بنا لیں لیکن جب تک حکومت اس کو قانونی شکل نہ دے اس وقت تک تو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر مذہبی رواداری کی فضا کو جو خراب کر رہا ہے اگر حکومت اس کے خلاف ایکشن نہیں لے گی تو جتنی مرضی آپ محنت کر لیں وہ ومحنت ایک واقعے سے ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کے علما کے ساتھ مل کر ایک عوامی رابطہ مہم شروع کی جارہی ہے۔
مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علما اور رہنما ہم آہنگی پر زور دیتے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود صورتحال میں کوئی خاطر خواہ بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ حال ہی میں پیش آنے والے واقعات کے بعد پرزور انداز میں یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے کہ ایک دوسرے کے مسلک اور فرقے کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور تحریری مواد پر پابندی کے علاوہ اس میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں امن و امن کا قیام ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو مل کر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔