جنوبی ایشیا کی دو جوہری قوتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم ساری دنیا کے لئے پریشانی کا سبب ہے اور یہاں امریکہ میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس تصادم کو طول پکڑنے سے روکنے اور کسی جوہری تصادم سے بچنے کے لئے عالمی قوتوں کو اپنا بھرپور اور فوری کردار اد کرنا چاہئے
امریکہ میں فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ایلان برمن نے وائس آف امریکہ اردو سروس کے قمر عباس جعفری کو بتایا کہ جنگ میں وسعت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ خاص طور پر کشیدگی میں کمی لانے کے لیے بھارت اور پاکستان پر یہ دباؤ ڈالیں کہ جنگ مزید نہ پھیلے۔ کیونکہ یہ کسی کی طرفداری کرنے سے زیادہ خطے کی سلامتی اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کی طویل المدت پالیسی یہ ہو گی کہ بھارت کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہا جائے اور پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کے متعلق اس کی جائز تشویش کو سمجھا جائے۔
امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معید یوسف کا کہنا تھا کہ جہاں جوہری ہتھیار ہوں اور فریقین کے درمیان عدم اعتماد بھی ہو تو خطرہ تو رہے گا۔
انہوں کہا کہ گزشتہ دنوں اندازی کی ایک بڑی غلطی ہمارے سامنے آئی ہے۔ہندوستان نے جو حملہ کیا تھا وہ اس لیے نہیں تھا کہ پاکستان جواب دے۔ بلکہ اس نے بڑی سوچ بچار کے بعد اپنی طرف سے ایسا حملہ کیا تھا کہ جس میں ایک جانب تو وہ اپنے عوام کو یہ بتا سکیں کہ انہوں نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور دوسری جانب پاکستان کو بھی ایسا کوئی نقصان نہ پہنچے کہ وہ یہ محسوس کرے کہ اسے جواب دینا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پاکستان جواب دینا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن اس پر بھی اندرونی دباؤ بڑھ گیا اور اسے کارروائی کرنی پڑی۔اب مودی صاحب خود کو خراب پوزیشن میں دیکھ رہے ہوں گے۔ کیونکہ اگر سیاسی نقطہ نظر سے اسے دیکھا جائے تو مودی صاحب کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ جواب نہ دیں تو یہ ان کے لئے سیاسی موت کے مترادف ہو گا۔ اور اپوزیشن ان پر چڑھ دوڑے گی۔ اور اس وقت ہندوستان میں یہ بات نہیں ہو رہی ہو گی کہ جواب دینا ہے یا نہیں بلکہ یہ بات ہو رہی ہو گی کہ کس طرح جواب دیناہے۔
انہوں کہا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے پاس رابطے کا کوئی براہ راست چینل نہیں ہے اور ماضی میں بھی جب ان ملکوں کے درمیان تلخیاں ہوئی ہیں تو امریکہ۔ چین اور دوسری بڑی قوتوں نے مدد کی ہے۔ لیکن اس بار یہ صورت نظر نہیں آ رہی ہے اور امریکہ کی توجہ خاص طور پر دوسرے عالمی امور پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ بات ہو رہی ہے کہ دنیا کے یقینی جوہری فلیش پوائنٹ کے بارے میں جہاں جنگ دنوں میں نہیں لمحوں میں شدت اختیار کر سکتی ہے تو بڑی طاقتوں کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ اور اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔