بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے کالعدم دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کی اپنی کوشش جاری رکھے گا۔ دوسری جانب پاکستان بھی اسے اپنی سفارتی فتح قرار دے رہا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ صحیح سمت میں اٹھایا جانے والا یہ ایک ایسا قدم ہے جو کہ دہشت گردی اور اس کے حامیوں کے خلاف لڑائی کے عالمی برادری کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے جمعرات کے روز نئی دہلی میں ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کروانے میں پلوامہ حملے نے کلیدی کردار ادا کیا۔
اس سوال پر کہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی بنیادوں میں پلوامہ حملے کا ذکر نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی کو تمام شواہد پیش کیے تھے جو کہ حتمی ووٹنگ کی بنیاد بنے۔
دوسری جانب امریکہ کے ایک تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ پلوامہ اور کشمیر جیسے الفاظ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے استعمال نہیں کیے گئے ہیں اور چین کی بھی یہی خواہش تھی۔ اقوام متحدہ کا مسعود اظہر کو پلوامہ حملے سے نہ جوڑ نا دراصل پاکستان کی جیت ہے کیونکہ پاکستان کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کے لیے مسعود اظہر کو ذمے دار نہیں مانتا اور نہ ہی اسے دہشت گرد سمجھتا ہے۔ چین کی بھی یہی خواہش تھی کہ پاکستان کو ناراض کیے بنا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس لیے پلواما حملے کا ذکر کیے بنا ہی اسے دہشت گرد کا نام دینا اس مسئلے کا حل تھا۔ بھارتی سیاست دان اور تجزیہ کار اس بات سے ناخوش ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار اسی وقت دیا جا سکتا تھا جب کشمیر اور پلوامہ حملے جیسے الفاظ نہ استعمال کیے جاتے۔‘
رویش کمار نے اس سوال کو مسترد کر دیا کہ کیا اس معاملے میں چین کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی ہے۔
اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ پابندی کمیٹی کے ارکان کو بھارت کی جانب سے فراہم کی گئی اطلاع اور بھارت کے موقف کے مطابق ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے بھارت کی سفارتی کامیابی قرار دیا اور اس سلسلے میں سابقہ یو پی اے حکومت کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ انھوں نے جے پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہندوستان کے ایک سو تیس کروڑ عوام کی آواز اقوام متحدہ میں گونج رہی ہے۔ پہلے یہاں کے وزیر اعظم کی آواز خود حکومت نہیں سنتی تھی۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت اور عہدے دار مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کو بھارت کی ایک عظیم کامیابی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں، ولسن سینٹر کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یو این سیکورٹی کونسل کی طرف سے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینا بے معنی ہے، جس کی حقیقت میں کوئی اہمیت نہیں۔ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے کر شاید اس کے سفر کرنے پر پابندی لگ جائے یا اس کے اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ کافی بیمار ہے۔ وہ کچھ کرنے کی حالت میں ہی نہیں ہے۔ یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ اس وقت اس کے پاس جیش محمد تنظیم کا کتنا اختیار ہے۔ اور اگر آپ ماضی میں جھانکیں تو سال 2008 میں حافظ سعید کو بھی ممبئی حملوں کے فوراّ بعد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی طرف سے دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن پچھلے دس برسوں سے حافظ سعید وہ سب کچھ کر رہا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ چاہے وہ میڈیا انٹرویوز دینا ہو یا تقریر کرنا۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر یو این سیکورٹی کونسل کسی کو دہشت گرد قرار دیتی ہے تو دکھانے کے لیے یہ واقعی بہت بڑی بات ہے لیکن کیا اس سے واقعی دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی سے نہیں!
بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے فیصلے کا خیرمقدم تو کیا لیکن سلامتی کونسل کے بیان میں پلوامہ حملے کا ذکر نہ ہونے پر اظہار افسوس بھی کیا۔ اس نے اسے تاخیر سے اٹھایا جانے والا قدم قرار دیا اور تاخیر کے لیے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
عالمی امور پر نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ اب پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کافی دباؤ پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے اسے گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اگر اس نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی تو وہ اسے بلیک لسٹ کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو کہیں سے بھی قرض نہیں مل سکے گا۔ جب کہ اسے قرض کی سخت ضرورت ہے۔
یہ فیصلہ بھارت میں مرحلہ وار جاری عام انتخابات کے درمیان آیا ہے۔ اس لیے حکمران بی جے پی نے جو کہ قومی سلامتی اور دہشت گردی کو انتخابی ایشو بنائے ہوئے ہے، اس فیصلے کا سہرا اپنے سر لیا۔
بی جے پی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس سے الیکشن پر زبردست اثر پڑے گا۔ لیکن قمر آغا کہتے ہیں کہ اس سے بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا۔
یاد رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ابھی تین مرحلوں کی پولنگ باقی ہے۔
متعدد انگریزی و ہندی روزناموں نے جیش محمد اور مسعود اظہر کی سرگرمیوں کو تفصیل سے شائع کیا ہے۔
متعدد نیوز چینلوں پر آج بھی اس موضوع پر مباحثے ہوتے رہے۔