اسلام آباد —
پاکستان کی پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ’’تمام فریقوں‘‘ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسلام آباد میں پیر کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں حکومت کو اس سلسلے میں طریقہ کار وضع کرنے اور مصالحت کاروں کے چناؤ سمیت تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا گیا۔
’’اس عمل میں تمام فریقوں کی حتی الامکان شمولیت ہونی چاہیئے، جب کہ اس میں صوبہ خبیر پختون خواہ کی حکومت اور دیگر فریقوں کا مکمل کردار ہونا چاہیئے۔‘‘
اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذاکراتی عمل کے بنیادی اصولوں میں مقامی رسم و رواج، قدروں اور دینی عقائد کا احترام، اور خطے مین امن و آشتی کے لیے ضروری ماحول کا قیام شامل ہونا چاہیئے۔
اجلاس میں منظور کردہ قرار داد میں ڈرون حملوں کو ملک کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ (حملے) ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت سے کہا گیا کہ وہ ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے امکانات کا جائزہ لے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی مفاد میں لڑی جا رہی ہے اور اس کے لیے ملکی وسائل استعمال کیے جائیں اور امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے ’’ہدایت یا رہنمائی‘‘ نہیں لی جائے گی۔
پارلیمان میں موجود بڑی سیاسی جماعتوں اور ملک کی فوجی قیادت کی موجودگی میں ہونے والا بند کمرہ اجلاس لگ بھگ چھ گھنٹے تک جاری رہا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس کے آغاز پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور اس صورت حال سے ’’جنگی بنیادوں‘‘ پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’’اگر ہم پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک کر لیتے ہیں تو اس سے ہم اپنے ملک کو واقعتاً اکیسویں صدی میں لے کر جائیں گے اور اگر خدا نا خواستہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ہم نے اس (معاملے) پر بھی نفاق کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کو نقصان ہوگا ... شائد فائدہ کسی کو بھی نا ہو، نقصان سب کو ہو گا۔‘‘
وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گردی اُن مسائل میں سے ایک ہے جن سے سیاسی مفادات سے قطع نظر نمٹنا ضروری ہے۔
’’مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں ہے کہ ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ اکٹھے ہو کر کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی اپنی ذاتی نگرانی میں کروانا ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم کے خطاب کے بعد فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے کانفرنس کے شرکاء کو ملک کی مجموعی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔
کل جماعتی کانفرنس میں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام بڑی جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں۔
کل جماعتی کانفرنس کے باضابطہ آغاز سے قبل قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں بر سرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور صوبہ خیبر پختو نخواہ کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک بھی شریک تھے۔
عمران خان کا روز اول سے مطالبہ رہا تھا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے انسداد سے متعلق قومی سطح پر اتفاق رائے کی کوشش سے پہلے صوبائی حکومت اور قومی و فوجی قیادت کے درمیان معاملات پر تبادلہ خیال ضروری ہے۔
اسلام آباد میں پیر کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں حکومت کو اس سلسلے میں طریقہ کار وضع کرنے اور مصالحت کاروں کے چناؤ سمیت تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا گیا۔
’’اس عمل میں تمام فریقوں کی حتی الامکان شمولیت ہونی چاہیئے، جب کہ اس میں صوبہ خبیر پختون خواہ کی حکومت اور دیگر فریقوں کا مکمل کردار ہونا چاہیئے۔‘‘
اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذاکراتی عمل کے بنیادی اصولوں میں مقامی رسم و رواج، قدروں اور دینی عقائد کا احترام، اور خطے مین امن و آشتی کے لیے ضروری ماحول کا قیام شامل ہونا چاہیئے۔
اجلاس میں منظور کردہ قرار داد میں ڈرون حملوں کو ملک کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ (حملے) ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت سے کہا گیا کہ وہ ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے امکانات کا جائزہ لے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی مفاد میں لڑی جا رہی ہے اور اس کے لیے ملکی وسائل استعمال کیے جائیں اور امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے ’’ہدایت یا رہنمائی‘‘ نہیں لی جائے گی۔
پارلیمان میں موجود بڑی سیاسی جماعتوں اور ملک کی فوجی قیادت کی موجودگی میں ہونے والا بند کمرہ اجلاس لگ بھگ چھ گھنٹے تک جاری رہا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس کے آغاز پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک دہشت گردی کی گرفت میں ہے اور اس صورت حال سے ’’جنگی بنیادوں‘‘ پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’’اگر ہم پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک کر لیتے ہیں تو اس سے ہم اپنے ملک کو واقعتاً اکیسویں صدی میں لے کر جائیں گے اور اگر خدا نا خواستہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ہم نے اس (معاملے) پر بھی نفاق کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کو نقصان ہوگا ... شائد فائدہ کسی کو بھی نا ہو، نقصان سب کو ہو گا۔‘‘
وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گردی اُن مسائل میں سے ایک ہے جن سے سیاسی مفادات سے قطع نظر نمٹنا ضروری ہے۔
’’مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں ہے کہ ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ اکٹھے ہو کر کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی اپنی ذاتی نگرانی میں کروانا ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم کے خطاب کے بعد فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے کانفرنس کے شرکاء کو ملک کی مجموعی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔
کل جماعتی کانفرنس میں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام بڑی جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں۔
کل جماعتی کانفرنس کے باضابطہ آغاز سے قبل قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں بر سرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور صوبہ خیبر پختو نخواہ کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک بھی شریک تھے۔
عمران خان کا روز اول سے مطالبہ رہا تھا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے انسداد سے متعلق قومی سطح پر اتفاق رائے کی کوشش سے پہلے صوبائی حکومت اور قومی و فوجی قیادت کے درمیان معاملات پر تبادلہ خیال ضروری ہے۔