رسائی کے لنکس

سیلاب متاثرین کی تعداد کے ابتدائی جائزے درست نہیں


سیلاب متاثرین کی تعداد کے ابتدائی جائزے درست نہیں
سیلاب متاثرین کی تعداد کے ابتدائی جائزے درست نہیں

صوبہ سندھ میں رواں سال اگست اور ستمبر میں غیر معمولی مون سون بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے بعد آفات سے نمٹنے کے قومی اور صوبائی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق متاثرین کی تعداد 80 لاکھ سے زائد بتائی جاتی رہی۔ لیکن اب حکومت کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد 48 لاکھ ہے۔

آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے چیئرمین ظفر اقبال قادر نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ متاثرہ افراد کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان نے ایک مشترکہ سروے کیا جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس سے قبل متاثرہ خاندانوں کی بتائی جانے والی تعداد درست نہیں تھی۔

’’جو اوریجنل ہمارا تخمینہ تھا سیلاب سے متاثرہ افراد کا وہ صیحح نہیں تھا کیوں کہ شروع میں (سنی سنائی) معلومات پر اعداد و شمار جمع کیے جاتے رہے۔ اب جب جا کر جائزہ لیا گیا تو 48 لاکھ لوگ سندھ میں متاثر ہوئے ہیں۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ عالمی تنظیم اور پاکستان کی مشترکہ جائزہ رپورٹ کے مطابق سندھ کےمتاثرہ اضلاع میں تین لاکھ 28 ہزار مکانات مکمل طور پر جب کہ 4 لاکھ 72 ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق اب بھی سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افراد حکومت اور امدادی تنظیموں کی طرف سے قائم عارضی پناہ گاہوں یا اپنے عزیز و اقارب کے ہاں مقیم ہیں۔

ظفر اقبال قادر
ظفر اقبال قادر

این ڈی ایم کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ سیلا ب سے متاثرہ خاندانوں تک امداد کی فراہمی اور اُن کی بحالی کے کاموں میں اُن کے ادارے کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ظفر اقبال قادر نے بتایا کہ سیلاب متاثرین کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے35 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کے جواب میں اب تک صرف 18 کروڑ ڈالر کی رقم ہی ملی ہے۔

آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو فوری طور پر پناہ گاہوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ سردی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خوراک کے بعد سب سے زیادہ توجہ متاثرین کو پناہ گاہیں فراہم کرنے پر دی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG