خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے عالمی دن کے موقع بدھ کو پاکستان میں منعقدہ تقاریب میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ قوانین کے موثر نفاذ کے عزم کو دہرایا گیا۔
اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ اور خواتین اراکین اسمبلی کے کاکس کے زیر انتظام منعقدہ تقریب میں کہا گیا کہ پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے قائم ’قومی کمیشن برائے وقار نسواں‘ اور دیگر اداروں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے رویوں میں تبدیلی کے لیے کوششوں کو تیز کیا جانا ضروری ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے جون تک پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے 4308 واقعات رپورٹ ہوئے۔
ربیعہ ہادی، عورت فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین تو ہیں لیکن اُن کے بقول اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی آسیہ تنولی کہتی ہیں کہ خواتین قانون ساز اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
حقوق نسواں کے ایک سرگرم کارکن شمعون ہاشمی کہتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے سب کو ہی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔
خواتین کے خلاف تشدد کے عالمی دن کے موقع پر حقوق نسواں کی تنظیموں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کی ذاتی شناخت کو خفیہ رکھا جائے اور اُن کی بحالی کے لیے وسائل مختص کیے جائیں۔