انتخابی اصلاحات کے لیے تجاویز پر مبنی مسودہ پیر کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں پیش کر دیا گیا جس میں الیکشن کمیشن کو ہر لحاظ سے ایک مکمل خودمختار ادارہ بنانے اور اس کے مختلف امور کے بارے میں قانون سازی تجویز کی گئی ہے۔
2014ء میں حکومت نے انتخابی اصلاحات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دونوں ایوانوں کے اراکین بھی شامل تھے۔
تقریباً ڈھائی سال تک اس سلسلے میں ہونے والی مشاورت اور مختلف تجاویز پر غور کے بعد یہ مسودہ تیار کیا گیا، جسے پیر کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قانون سازی کی تاریخ میں یہ پہلا مسودہ ہے جو اتنی طویل اور سیر حاصل مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 40 سال بعد جامع انتخابی اصلاحات ہونے والی ہیں، جس میں انتخابی عمل کے پورے نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
وزیر قانون نے بتایا کہ الیکشن بل 2017ء آٹھ مختلف قوانین میں اصلاحات کرکے ترتیب دیا گیا، جس میں الیکشن کمیشن کو انتظامی، مالی اور قانونی طور پر مکمل خودمختار بنا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مسودے کی تیاری میں اس قدر وقت اس لیے صرف ہوا، کیونکہ جب اس بارے میں تجاویز طلب کی گئی تو سیاسی جماعتوں، وکلا اور سول سوسائٹی کی طرف سے 1200 تجاویز آئیں جن پر غور کیا اور جب اسے انٹرنیٹ پر ڈالا گیا تو اس پر مزید 625 تجاویز موصول ہوئیں جن پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی۔
اصلاحاتی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے قوانین بنانے میں بااختیار ہوگا اور اس کے لیے اسے وفاقی حکومت سے مشاورت یا صدر مملکت کی پیشگی اجازت درکار نہیں ہوگی۔
الیکشن کمیشن انتخابات سے چھ ماہ قبل مکمل منصوبہ تیار کر کے تمام درکار قانونی اور انتظامی اقدام کر سکے گا۔
مزید برآں پولنگ کے عمل اور انتخابی نتائج کو مزید شفاف انداز میں مرتب کرنے کے لیے بھی اس مسودہ میں تجاویز شامل ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں کو خواتین امیدواروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے عام انتخابات میں تقریباً پانچ فیصد ٹکٹ خواتین امیدواروں کو دینے کا کہا گیا ہے۔