خیبر پختونخوا کی نشست پی کے ۔23 شانگلہ۔1 پر دوبارہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شوکت علی یوسفزئی غیر سرکاری نتیجے میں 42116 ووٹ سے دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں۔
25 جولائی کے عام انتخابات میں پی کے۔ 23 شانگلہ۔1 میں خواتین کے 10 فیصد سے کم ووٹ ڈالے جانے پر الیکشن کمشن آف پاکستان نے 8 اگست کو پی کے 23 کا الیکشن کالعدم قرار دے کر10 ستمبر کو دوبارہ انتخاب کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔
جولائی کی 25 تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارشوکت علی یوسفزئی نے 17399 ووٹ لے کر جیت گئے تھے، لیکن اس مرتبہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے ایک دھڑے اور گوجر برادری کی حمایت سے 42116 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد ارشاد خان متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کے دوسرے دھڑے کے تعاون سے22315 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
حلقہ پی کے ۔23 شنگلہ۔1 میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 200555 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 113827 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 86728 ہے۔
پی کے ۔23 میں کل پولنگ سٹیشنز کی تعداد 135 ہے، جن میں مرد پولنگ سٹیشنز 25 اور خواتین کے پولنگ سٹیشنز 21 ہیں، جبکہ مردوخواتین کی مشترکہ پولنگ سٹیشنز کی تعداد 89 ہیں، جس میں 82 نارمل ،35 حساس اور 18 حساس ترین پولنگ سٹیشنز قرار دیے گئے تھے۔
الیکشن سے ایک دن پہلے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جس میں 2585 پولیس اہل کاروں کے ساتھ ساتھ فوج کے اہل کاروں کی بھی تعینات کیے گئے۔جنہوں نے الیکشن کو پرامن ماحول میں منعقد کیا۔
شانگلہ کے الیکشن کے حوالے سے ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والی خواتین کی ایک تنظیم(خویندوجرگہ) کی کوآرڈینیٹر تبسم عدنان کہتی ہے کہ ہم نے 2013 کے الیکشن سے آگاہی مہم شروع کی تھی کہ خواتین انتخابات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ شانگلہ میں خواتین کے کم ٹرن آوٹ پر احتجاج بھی کیا تھا۔ اور 2018 کے الیکشن میں میں نے دیکھا کہ خواتین کے ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف ایک ووٹ ڈالا گیا تھا تو میں نے وہاں پر مہم چلائی جس کے نتیجے میں 30 ووٹ پول ہوئے۔ انہوں نے الیکشن کمشن کی جانب سے دوبارہ انتخابات کے حکم کا خیر مقدم کیا اور اسے اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ خواتین کی کم سے کم ٹرن آوٹ 20 فیصد مقرر کی جانی چاہیے۔
انسانی حقوق کمشن کے علاقائی کوآرڈینیٹر شوکت سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ الیکشن آئین اور قانون کے تحت خواتین کی سیاسی عمل میں عدم شمولیت کی بناء پر دوبارہ منعقد کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 90 کے قریب خواتین اور مردوں کا مشترکہ پولنگ سٹیشنز قائم کئے گئے تھے جس کو علاقائی رسم و رواج کے تحت برا مانا جاتا ہے اور اس وجہ سے اب بھی خواتین کا ٹرن آوٹ کم رہا۔
شانگلہ کے دوبارہ انتخابات کے حوالے سے سوات پریس کلب کے چیف آرگنائزر اور روزنامه شمال کے چیف ایڈیٹر غلام فاروق کہتے ہیں کہ شانگلہ کے عوام اور خواتین کے حقوق اور مینڈیٹ کا احترام کیا جائے کہ عوام جس کو چاہے آزادانہ ووٹ دے کر ان کو کامیاب کریں اور زبردستی کسی پر فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہئے ۔
سوات پریس کلب کے چیئرمین معروف صحافی شہزاد عالم کہتے ہیں کہ شوکت علی یوسفزئی اس سے پہلے پشاور سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اپنے آبائی علاقے میں ترقیاتی کام کئے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں نے ان کی حمایت کی۔