پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان سے فوجی آپریشن کے باعث افغانستان نقل مکانی کر جانے والے قبائلیوں کی وطن واپسی کا عمل آئندہ ماہ کے اواخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
تقریباً ڈھائی سال قبل ہزاروں خاندان شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'ضرب عضب' شروع ہونے کے بعد یہاں سے نقل مکانی کر کے افغان صوبہ خوست چلے گئے تھے۔
پیر کو ان کی مرحلہ وار واپسی کا عمل شروع ہوا اور دیر گئے 173 خاندانوں کے لگ بھگ 500 افراد غلام خان کی سرحدی گزرگاہ سے ہو کر بنوں کے قریب قائم بکا خیل کیمپ پہنچے۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد خان نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روزانہ دو سو خاندانوں کو افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
ان کے بقول افغانستان سے واپس آنے والے قبائلی خاندانوں کو غلام خان سرحدی گزرگاہ پر خوراک اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے اور یہاں سے انھیں بکا خیل کیمپ منتقل کیا جا رہا ہے۔
"وہاں (کیمپ میں) انھیں دو سے تین ہفتے رکھیں گے پھر ان کو ان کے علاقوں میں واپس بھیج دیں گے۔ یہ مرحلہ فروری کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا۔"
آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں حکام نے شمالی وزیرستان کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کا بتایا ہے جب کہ اس قبائلی علاقے میں بحالی و تعمیر نو کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
آپریشن کے باعث پاکستان کے صوبہ خیبر پختنونخوا کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کر جانے والے لاکھوں افراد کی مرحلہ وار واپسی کا عمل بھی جاری ہے۔
عارضی طور پر افغانستان منتقل ہو جانے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات تو سامنے نہیں آئی لیکن پاکستانی حکام کے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار خاندان افغانستان گئے تھے جب کہ افغان حکام کے بقول ان افراد کی تعداد ایک لاکھ 27 ہزار کے قریب ہے۔