وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے اپنے ملک کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں مقیم افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی چاہتا ہے۔
منگل کے روز قومی اسمبلی میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کے کوائف کا اندراج کرنے والے قومی ادارے 'نادرا' کے دفاتر میں ایسے تمام ضروری انتظامات کیے گئے ہیں تا کہ افغان پناہ گزین غیر قانونی طریقے سے پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل نہ کر سکیں۔
حالیہ برسوں میں حکومت یہ بتا چکی ہے کہ دہائیوں سے پاکستان میں بطور پناہ گزین آباد ہزاروں افغان شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کر رکھی تھیں جب کہ دو سال قبل بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے جانے والے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور نے بھی جعلی نام سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا رکھا تھا۔
ملا منصور کی ہلاکت کے بعد وزارت داخلہ نے تمام شناختی کارڈوں کی دوبارہ جانچ کا فیصلہ کیا تھا اور اس دوران لاکھوں شناختی کارڈز کو بلاک بھی کر دیا گیا تھا، جن میں اکثریت پشتون نسل کے لوگوں کی تھی جس پر حکومت کو گروہی بنیاد پر امتیاز برتنے جیسے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تاہم اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار ایوان کو یہ یقین دہانی کرواتے رہے کہ حکومت کسی بھی خاص طبقے یا گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی اور صرف ایسے شناختی کارڈوں کو بلاک کیا گیا ہے جن کے کوائف اور دستاویزات نامکمل اور مشکوک ہیں۔
منگل کو ایوان زیریں میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی یقین دلایا کہ افغان پناہ گزینوں کو پاکستانی شناختی کارڈز حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیے گئے انتظامات اور اقدام پشتون آبادی کے خلاف ہرگز نہیں ہیں۔
ان کے بقول پشتون قوم نے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے قربانیاں دی ہیں اور حکومت ان کا احترام کرتی ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کی کراچی میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد قبائلیوں کی طرف سے شروع ہونے والا احتجاج پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل چکا ہے۔
ہزاروں قبائلیوں نے کئی روز تک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث مفرور پولیس افسر راؤ انوار اور دیگر کو گرفتار کیا جائے جب کہ ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے پشتونوں کے معاملات کی تحقیقات بھی کروائی جائیں۔
گزشتہ ماہ اس دھرنے کے شرکا حکومت کی طرف سے تحریری یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کر کے چلے گئے تھے لیکن گزشتہ ہفتے ہی بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ اور بعض دیگر علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام ریلیاں نکالی گئی تھیں۔