پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک لاکھ 78 ہزار سے زائد بلاک شدہ قومی شناختی کارڈز کو عارضی طور پر بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ حکومت شناختی کارڈز کی جانچ میں خاص طور پر پشتونوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چودھری نثار نے بتایا کہ 353085 شناختی کارڈز کو جانچ پڑتال کے بعد بلاک کیا گیا تھا جن میں سے 174184 کے بارے میں تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ کلی طور پر غیر ملکیوں نے جعلی طریقے سے حاصل کیے تھے۔ ان کے بقول ان شناختی کارڈز کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔
باقی ماندہ کارڈز کے بارے میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں 60 روز کے لیے بحال کیا جا رہا ہے لیکن ان کارڈز کے حامل افراد کو مستند دستاویزات مقامی نادرا دفتر میں جمع کروانا ہوں گی۔
ان دستاویزات میں وفاقی وزیر کے بقول 1978ء سے قبل کی اراضی ملکیت کی رجسٹری یا ڈومیسائل یا محکمہ مال کا تصدیق شدہ شجرہ نصب، شناختی کارڈ، اسلحہ یا ڈرائیونگ لائسنس یا 1990ء سے قبل اپنے یا اپنے کسی رشتے دار کی سرکاری ملازمت کا دستاویزی ثبوت شامل ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں بلوچستان کے علاقے میں امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بننے والے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی لاش کے پاس سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ برآمد ہونے پر ملک میں شناختی کارڈز کی ازسرنو جانچ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس دوران حزب مخالف خاص طور پر پشتون قوم پرستوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ زیادہ تر کارڈز پشتونوں کے بلاک کیے گئے اور حکومت مبینہ طور پر پشتو بولنے والوں سے امتیازی سلوک روا رکھ رہی ہے۔
حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے اور ہفتہ کو پریس کانفرنس میں بھی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے اس دعوے کو مسترد کیا۔
"اس میں زیادہ (کارڈز) پشتونوں کیوں آ رہے ہیں کیونکہ 35 لاکھ افغان پناہ گزین پچھلے 30 سالوں سے یہاں رہ رہے تھے زیادہ جعلی شناختی کارڈز انھوں نے ہی لیے تھے۔ اس کے باوجود ایک لاکھ 25 ہزار غیر پشتونوں کے بھی بلاک ہوئے ہیں۔"
انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ اب سیاسی جماعتیں سیاست کی بجائے اس عمل میں حکومت کی راہنمائی کریں گی۔
کارڈز کو بحال کرنے کا عمل پیر سے شروع ہو گا۔