پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں کچھ کم نہ تھیں کہ اب مچھروں اور ان سے پھیلنے والی بیماریوں کی بہتات نے پاکستانیوں کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ شہر کے کسی کونے میں بھی چلے جایئے مچھردانی مانگے سے نہیں ملے گی۔ اول تو عام دکانوں پر مچھردانی ہے ہی نہیں اور اگر اتفاق سے کہیں مل بھی جائے تو اتنی مہنگی کہ عام آدمی لیتے ہوئے بھی دس بار سوچتا ہے۔
مچھردانی بیچنے والے ایک دکاندار صادق نے مچھر دانی مانگنے پر بری طرح چڑتے ہوئے کہا کہ "نہیں ہے بھائی، سب کو ایک ہی دکان ملی ہے کیا؟"
قومی ادارہ برائے صحت میں گزشتہ ہفتے ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ڈینگو اور ملیریا کو نہایت مہلک مرض قرار دیتے ہوئے اس کے خطرناک نتائج پر غور و خوض کیا گیا۔ خصوصی طور پر سیلاب سے بری طرح متاثرہ علاقو ں میں ملیریا اور ڈینگی کو "زبردست رسک "قرار دیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت کے نمائندے Guido Sabatinelliکے مطابق ملیریا کا سیزن ابھی پاکستان میں شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ملک بھر میں تین لاکھ مشتبہ کیسز سامنے آگئے تھے ۔
دو لاکھ سے زائد افراد جو سیلاب کے ہاتھوں اپنا گھر بار اور گزر اوقات کا سامان لٹاچکے ہیں وہ ملیر یا اور ڈینگی سے بھلا خود کو کس حد تک بچائے رکھ سکتے ہیں! دونوں ہی مہلک مرض ہیں اور دونوں ہی ان دنوں عروج پر ہیں۔
ٹھٹھہ کے ایک سیلاب متاثرہ شخص صغیر محمد کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سر چھپانے کا آسرا نہیں، مچھردانی باندھنے کے لئے چارپائی یا پلنگ کہاں سے لائیں گے؟ صغیر کے بیٹے کو تیز بخارتھا اور ڈاکٹروں نے ملیریا کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ صغیر بلڈ ٹیسٹ کراچکا ہے اور اب اسے رپورٹ کا انتظار ہے۔
گرمی کی وجہ سے بچوں کو رات بھر چادر وغیرہ بھی نہیں اڑائی جاسکتی لہذا اکثر بچے مچھروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ مچھروں سے بچنے کے لئے رات بھر کوئی دوا بھی کارگر نہیں رہتی اور جسم پر ملنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اس کا اثر جاتا رہتا ہے۔
ٹھٹھہ جیسے سندھ کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک سیلابی پانی کھڑا ہے۔ اس پانی میں مچھروں کی افزائش تیزی سے جاری ہے ۔ جتنی تیزی سے مچھر پنپ رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے ملیریا اور ڈینگی بھی پھیل رہا ہے۔
پاکستان میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کام کرنے والے برطانوی ادارے مرلن اور چلڈرنز آرگنائزیشن پلان انٹرنیشنل کے مطابق سیلاب زدہ علاقے مچھروں کی افزائش نسل کے لئے مثالی ہیں۔ یہی مقامات ملیریا کی وباء پھیلنے کے لئے "موزوں" ہیں۔
چلڈرنز آرگنائزیشن پلان انٹرنیشنل کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق دولاکھ سے زیادہ لوگ ملیریا کا شکار ہوسکتے ہیں ۔یہ یہاں کی سالانہ شرح سے دوگنا ہیں یعنی جتنے افراد ہر سال ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں ، یہ تعداد اس کا دوگنا ہے۔
اگر چہ کراچی میں سیلابی پانی کا گزر تک نہیں لیکن یہاں گھروں ، دکانوں اور کھیل کے میدانوں میں گاڑیاں دھونے ، پانی بہانے،گٹر بہنے اور استعمال شدہ پانی کھلے عام پھینکنے کا رواج ہے جو جگہ جگہ کھڑا ہوجاتاہے ۔ پھر اسی پانی میں مچھروں کی افزائش کون سا مشکل مرحلہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں بھی مچھروں اور ان سے پھیلنے والے امراض کی بہتات ہے۔
گزشتہ چھتیس گھنٹوں کے دوران مزید75مریضوں کو ڈینگی وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے جس کے بعد داخل مریضوں کی تعداد 218 ہوگئی ہے۔ ڈینگی سروی لینس سیل کے سربراہ ڈاکٹر سریش کمار کے مطابق ڈینگی سے منگل کی رات تک 3126افراد متاثر ہوچکے تھے۔ ان میں 1730مریضوں کے ڈینگو مرض میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔