پاکستانی عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلاب سے یہ ’’سبق‘‘ ملتا ہے کہ اگر فوری طور پر بڑے ڈیم تعمیر نہ کیے گئے تو ملک کو آگے چل کر نہ صرف ایسی مزید آفتوں کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ آئندہ پندرہ سالوں میں پینے کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وفاقی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے سربراہ ڈاکڑ محمّد اسلم طاہر نے کہا کہ اگر پاکستان میں بڑے ڈیم موجود ہوتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا اور جو اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اس سے یقیناً بچا جا سکتا تھا۔
’’پاکستان میں 1970 کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں اس وقت گیارہ بڑے ڈیم اور ایران میں 45 ڈیم بن رہے ہیں‘‘
انھوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور فروغ پاتی صنعت کاری کے باوجود ڈیم تعمیر نا کرنا ناقص منصوبہ بندی اور پیش بینی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر اسلم طاہر نے متنبہ کیا کہ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر صرف سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں کو روکنے ہی کے لیے نہیں بلکہ پانی کے اس بحران سے بچنے کے لیے بھی ضروری ہے جس کی طرف پاکستان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔
’’اس وقت ہماری آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ ہے جو 2025 تک بیس کروڑ ساٹھ لاکھ تک بڑھ سکتی ہے اور اگر آبی دستیابی کی صورتحال یہی رہی تو آنے والے وقت میں پینے کے لیے بھی پانی نہیں ملے گا‘‘
انھوں نے مزید بتایا کہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار چھ سو کیوبک میٹر تھی جو اس وقت کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹرفی کس سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔
ادارے کے سربراہ کے مطابق بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے کی تعمیر کے بعد بھی فی کس پانی کی دستیابی صرف اس حد تک ہی بہتر ہو سکے گی جو 1970میں تھی اور یہ کہ صرف اس ایک ہی ڈیم پر اکتفا کرنے کی بجائے ملک کی سیاسی قیادت کو اتفاق رائے سے کئی بڑے ڈیم تعمیر کرنا ہوں گے تاکہ بروقت منصوبہ بندی سے آئندہ سنگین ممکنہ بحرانوں سے بچا جا سکے۔
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے بھی پاکستان میں آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر کی حمایت کی ہے۔
گذشتہ ہفتے صحافیوں کے ساتھ ایک مذاکرے میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور ایک امریکی عہدے دار ہونے کے ناطے وہ یہاں نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے زمین کے انتخاب پر کوئی رائے نہیں دے سکتے۔البتہ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان یکے بعد دیگرے سیلاب کی تباہ کاریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہالبروک نے امریکی علاقے نیو آرلینز میں پانچ برس قبل آئے سمندری طوفان کترینا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک امیر ملک ہوتے ہوئے بھی امریکہ ابھی تک وہاں تعمیر نو کا کام مکمل نہیں کر سکا ہے ۔ ان کے مطابق پاکستان میں ہونے والی تباہی کترینا سے پچاس سے سو گنا زیادہ ہے۔