پاکستان کے حوالے سے اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد اور اموات کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ملک میں رواں سال یکم جون کو اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 76 ہزار 332 تھی۔ جو پہلا کیس سامنے آنے کے 115 روز بعد 21 جون کو ایک لاکھ 81 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یعنی محض تین ہفتوں یا 21 دن میں متاثرہ افراد کی تعداد میں ایک لاکھ چار ہزار سے زائد مریضوں کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح رواں ماہ میں اب تک نئے کیسز کی یومیہ اوسط 4988 بنتی ہے۔
سرکاری طور پر جاری اعداد و شمار کے مطابق 13 جون کو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ کرونا کے نئے کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ جن کی تعداد 6825 تھی۔
برِ اعظم ایشیا کے 49 ممالک میں پاکستان کرونا کیسز میں اضافے کے لحاظ سے 15 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں ہر 10 لاکھ افراد میں سے 820 افراد اس وبا سے متاثرہ ہیں۔
اگر کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3590 ہو چکی ہے۔ جو متاثرہ افراد کا 2 فی صد بنتی ہے۔
یکم جون کو ملک میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1621 تھی۔ یعنی محض 21 روز میں ہلاکتوں کی تعداد میں دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
ایشیا میں پاکستان اس وبا سے زیادہ ہلاکتوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے جب کہ پاکستان سے اوپر بھارت، ایران، ترکی اور چین ہے۔ جب کہ ہلاکتوں کی شرح کے لحاظ سے پاکستان میں اوسطاً 10 لاکھ میں سے 16 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ شرح خطے کے دیگر ممالک یعنی بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، مالدیپ اور چین سے کہیں زیادہ ہے تاہم ایران اور سعودی عرب سے کم ہے۔
اصل تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے؟
حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار پر کئی ماہرین یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سائنس اور صحت سے منسلک کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد اصل تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع انڈس اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر عبد الباری خان کا کہنا ہے کہ بہت سے کیسز میں لوگ اس وبا سے متاثر ہونے کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر گھر میں کسی ایک کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آ جائے تو دیگر لوگ علامات ظاہر ہونے پر بھی ٹیسٹ کرانے سے گریز کرتے ہیں اور سیلف آئسولیشن میں خود کو رکھ کر مرض سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں لوگوں کو شعور اور آگہی فراہم کرنا ضروری ہے اور انہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ بچاؤ کے لیے احتیاط ضروری ہے۔ جب کہ علامات ظاہر ہونے پر ٹیسٹ کرانا بھی ضروری ہے۔ تاکہ ٹھیک صورت حال کا اندازہ ہو پائے۔
ان کے بقول دوسری جانب لوگوں کو بتانا ہو گا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عبد الباری خان نے بتایا کہ ملک میں ٹیسٹنگ کی استعداد میں تو کافی اضافہ ہو چکا ہے جس میں مزید اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اصل چیز لوگوں کی جانب سے اس وبا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی وبا کےپھیلاؤ سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ جب کہ ہمارا تو صحت کا نظام پہلے ہی کمزور ہے۔ اس لیے اس کے پھیلاؤ کو روکنا بہت اہم ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کی قائم کردہ ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن بھی اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے رپورٹ کیے گئے کیسز کے مقابلے میں حقیقت میں کیسز کی تعداد دو سے تین گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ٹیسٹ کم ہونے اور سانس کے دیگر امراض کے باعث ہلاکتوں کو ان اموات میں شامل نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اگر اسی رفتار سے کیسز بڑھتے رہے تو رواں سال جولائی کے آخر میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 12 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 42 ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بدترین صورت حال ابھی آنا باقی ہے۔
معتدل علامات کے حامل مریضوں کی اموات میں بھی اضافہ
سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ایسے مریضوں کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ جن میں بظاہر اس وبا کی معتدل علامات کے باعث انہیں گھر پر ہی آئسولیشن کا مشورہ دیا گیا تھا۔
ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے ایسے 182 مریضوں کی تصدیق کی ہے۔ جو گھروں پر آئسولیشن کے دوران ہی اموات کا شکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ سندھ میں 69 ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 31 ہزار سے زائد کو گھروں پر ہی آئسولیشن کا مشورہ دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اعتراف کیا کہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگ ہیں۔ جو اس وبا کا شکار تو ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ اسپتال نہیں آنا چاہتے اور نہ ہی اس بارے میں بتانا پسند کرتے ہیں۔
صوبائی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں ‘ہائی ڈیپینڈینسی یونٹس’ میں بستر تو خالی ہیں۔ مگر وہ شدید متاثرہ افراد جنہیں جان بچانے کے لیے وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ ان کی تعداد کافی کم ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ گھروں پر موجود سیلف آئسولیشن والے مریض اپنے پاس آکسی میٹر رکھیں۔ جس سے وہ اپنا آکسیجن لیول ماینٹر کرتے رہیں۔ اگر ان کا آکسیجن لیول متواتر گرتا رہے تو وہ فوری طور پر اسپتال سے رجوع کریں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باعث معتدل علامات یا علامات کے بغیر مریضوں کو بھی اسپتالوں میں رکھنا ممکن نہیں۔ تاہم فوری طور پر اسپتال سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں جان جانے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔