پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں سے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کنٹرول اتھارٹی (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک طرف نئے مریضوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے تو وہیں کرونا کے صحت یاب مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس صورتِ حال پر ماہرینِ صحت کہتے ہیں کرونا کیسز میں کمی کی ایک وجہ ٹیسٹوں کی شرح کم کرنا ہے جب کہ بہتر حکومتی حکمتِ عملی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی اور کرونا وائرس سے متعلق فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ٹیسٹوں کی شرح میں کمی اس لیے ہو رہی ہے کیوں کہ لیبارٹریوں اور اسپتالوں میں کرونا ٹیسٹ کرانے کے لیے آنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ کرونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کی شرح کئی ہفتوں سے نیچے گرتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کرونا کے جو مریض اِس وقت پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں، خواہ وہ آکسیجن پر ہیں یا وینٹی لیٹرز پر، اُن کی تعداد میں بھی بتدریج کمی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حساب سے صورتِ حال ابھی بہتر ہے۔ لیکن کئی ممالک میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کرونا وائرس کی شدت کم ہونے کے بعد دوسری لہر آئی ہے۔ اس لیے ابھی احتیاط کرنا لازم ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرام بھی ڈاکٹر فیصل سلطان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں کیسز اور اموات کی شرح کم ہوئی ہے لیکن یہ وائرس ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ ان کے بقول اس وائرس کا خطرہ برقرار رہے گا، اس لیے ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔
عید الاضحیٰ کے بعد کرونا کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے؟
وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن برائے کرونا وائرس ڈاکٹر فیصل سلطان نے عید الاضحٰی کے کرونا کیسز کے پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں کہا کہ اس کے اثرات آئندہ چند دنوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
ان کے بقول، "مستقبل قریب میں بھی مختلف مذہبی تہوار یا مواقع آ رہے ہیں جیسے محرم الحرام کا مہینہ، اس کے بعد اسکول کھولنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ تمام چیزیں ہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے۔"
اُنہوں نے مزید کہا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کے لیے لگائی گئی مویشی منڈیوں سے جو نمونے لیے گئے تھے ان کے نتائج بہتر نکلے ہیں اور اعداد و شمار ہیں بھی اطمینان بخش ہیں۔
"صرف مویشی منڈی سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر آپ کرونا پر مکمل گرفت نہیں بتا سکتے۔ یہ صرف ایک چیز ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل جو کرونا کیسز میں اضافے اور کمی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آئندہ آنے والے دس دنوں کے اعداد و شمار پر گہری نظر رکھی جائے گی۔"
یو ایچ ایس کے پرنسپل ڈاکٹر جاوید اکرام کے مطابق ابھی تو عید گزری ہے جس پر لوگوں نے کچھ خاص احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عید کے اثرات آئندہ چند روز میں سامنے آ جائیں گے۔
ڈاکٹر جاوید اکرام نے کہا کہ آنے والے دنوں میں شہریوں کی جانب سے برتی جانے والی احتیاط ہی اِس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کا سبب بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ عید الاضحٰی پر مویشی منڈیوں سے اکٹھے کیے گئے نمونوں سے متعلق اعداد و شمار سے صورتِ حال کا کچھ خاص اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ان اعداد و شمار کی بنا پر اندازے تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
"آگے محرم آ رہے ہیں جس میں یہ صورتِ حال بگڑ بھی سکتی ہے۔ محرم الحرام میں بہت بڑی بڑی محفلیں ہوتی ہیں، جلوس ہوتے ہیں اور تعزیے نکالے جاتے ہیں جس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی۔ محرم کے بعد پھر 14 اگست اور ربیع الاوّل کے مہینے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔"
پاکستان نے کرونا کی جنگ جیت لی؟
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ابھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم کرونا وائرس سے جنگ میں فتح کی طرف جا رہے ہیں۔ البتہ اعداد و شمار، ماہرین کے تجزیوں اور تحقیقوں کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتِ حال بہت سے ملکوں کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔
"سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک بھر میں آکسیجن بیڈز پر جو کرونا کے مریض ہیں، اُن کی مجموعی تعداد میں واضح کمی آئی ہے اور روزانہ آ رہی ہے۔ نئے مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ایک مرحلے میں مئی، جون کے مہینوں میں روزانہ 24 فی صد نئے مریض سامنے آتے تھے لیکن اَب یہ تعداد چار سے پانچ فی صد پر آ گئی ہے۔ تو یہ دونوں چیزیں بڑی واضح ہیں۔ وبائی امراض کا علاج کرنے والے ماہرین اِس بات کو بہتر سمجھیں گے کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔"
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اِس وقت بھی کرونا وائرس کی مختلف علامات والے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جن میں علامات قدرے کم ہیں۔ کچھ مریض ایسے بھی ہیں جن میں علامات اتنی کم ہیں کہ اُنہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا اور بعض مریضوں میں زیادہ سنجیدہ علامات ہیں۔
خطے کے دوسرے ممالک میں کیا صورتِ حال ہے؟
ڈاکٹر فیصل سلطان نے ایران کی صورتِ حال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پہلے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور پھر تعداد کم ہوئی۔ ایران میں کرونا کے مریضوں کی تعداد دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑھنا شروع ہوئی اور اب اس میں پھر کچھ کمی آ گئی ہے۔
بھارت میں کرونا کیسز میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور روزانہ ہزاروں مریض سامنے آ رہے ہیں جب کہ سیکڑوں یومیہ اموات بھی ہو رہی ہیں۔
بھارت میں کرونا وائرس کی صورتِ حال کے بارے میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ وہاں زیادہ تر لوگ شہروں سے دیہات چلے گئے جس کے باعث کیسز کی شرح میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں یہ مرض ابھی تک شہروں میں موجود ہے۔ دیہی علاقے اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اللہ کرے کہ یہ مرض شہروں تک ہی محدود رہے۔ بصورتِ دیگر دیہی علاقوں میں وائرس کی موجودگی خطرناک صورتِ حال اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستان کی حکمتِ عملی
ڈاکٹر فیصل کے مطابق کرونا وائرس کے تدارک کے لیے حکومت کے تین، چار اقدام بہت اہم ہیں۔ جن میں تمام کوششوں کا ایک سمت میں جانا، باہمی روابط رکھنا خاص طور پر این سی او سی میں سب کو ساتھ لے کر چلنا، یہ حکمتِ عملی بہت بہتر تھی۔
"دوسرے نمبر پر 'کانٹیکٹ ٹریسنگ' تھی۔ اگر کسی مریض کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت پایا گیا تو اس سے رابطے میں رہنے والوں کے بھی ٹیسٹ کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ اس مریض سے یہ مرض کتنے لوگوں تک پھیلا ہے۔"
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھنے میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن یا ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن کا بنیادی تصور تھا کہ اُن علاقوں کو بند کرنے کی کوشش کریں جہاں بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ سارا ملک یا پورا شہر بند کر دینا ٹھیک نہیں۔
ڈاکٹر جاوید اکرام سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں بسنے والے لوگ جسمانی طور پر قدرے مضبوط ہیں اور ان کی قوتِ مدافعت بہتر ہے۔ ان کے بقول یورپی ممالک کی نسبت یہاں کی خواتین مردوں کے مقابلے میں کم بازاروں میں نکلتی ہیں۔ بازاروں میں آدمیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے پچاس فی صد آبادی تو کم ہی باہر نکلتی ہے۔
ان کے بقول، "دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو صفائی ہمارے دین کا حصہ ہے۔ وضو کرنا جس میں ہاتھ دھونا اور کچھ اور چیزیں شامل ہیں جس کے باعث جراثیم قدرے دور رہتے ہیں۔ پھر ذرائع ابلاغ نے بھی لوگوں میں کافی شعور اجاگر کیا تھا۔ حکومت نے جو اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا اُس سے بھی مریضوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔ کچھ ٹیسٹوں کی شرح بھی گھٹا دی گئی ہے۔ جب ٹیسٹ ہی کم ہوں گے تو ظاہر ہے کیسز بھی کم ہی سامنے آئیں گے۔"
خیال رہے کہ کرونا وائرس کی بہتر صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پنجاب نے صوبہ بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن ختم کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن 5 اگست کے بجائے تین اگست سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے حکومتِ پنجاب نے عیدالاضحٰی پر کرونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گزشتہ ماہ 28 جولائی کو صوبہ بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا جو پانچ اگست تک نافذالعمل رہنا تھا۔