پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لاہور کی جوزف کالونی کے رہائشی ساون مسیح کو لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ مذہب کیس میں بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مذکورہ شخص پر توہینِ مذہب کے الزام کے باعث لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع مسیحیوں کی بستی جوزف کالونی کے کئی گھروں کو جلا دیا گیا تھا۔
جسٹس جاوید گھرال اور جسٹس سید شہباز علی پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کو جوزف کالونی کے رہائشی ساون مسیح کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ وہ گزشتہ سات برس سے توہینِ مذہب کیس میں جیل میں قید ہیں۔
ساون مسیح کے والد جوزف کالونی کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں اور بیٹے کی رہائی کی آس میں خاصے بوڑھے ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چمن مسیح نے بتایا کہ وہ اور ساون کی والدہ بہت بیمار رہتی ہیں۔ اُنہوں نے بمشکل گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لاہور کارپوریشن میں درجہ چہارم کے سابقہ ملازم ہیں۔
چمن مسیح کے مطابق کیس کے دورانِ سماعت جتنا عرصہ بھی اُن کا بیٹا جیل میں قید رہا۔ ملاقاتوں، کرایوں اور دیگر اخراجات پر تقریباً 10 سے 12 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
چمن مسیح کے مطابق ساون مسیح کی گرفتاری کے بعد اُنہوں نے ساون کی اہلیہ اُن کی دو بیٹیوں کو ایک بیٹے کے ساتھ محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ سانحہ میں اُن کا گھر بھی جلا دیا گیا تھا۔
جوزف کالونی کے مکینوں کا خوف
جوزف کالونی کے رہائشی سہیل مسیح کھوکھر کہتے ہیں کہ یہ غریب لوگوں کی بستی ہے۔ عدالت نے ساون کو رہا تو کر دیا ہے جو اچھا فیصلہ ہے۔ لیکن اُن کے علاقے میں ایسے با اثر افراد مقیم ہیں۔ جو عدالتی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل مسیح نے کہا کہ جب ساون مسیح پر توہینِ مذہب کا کیس بنا اور مارچ 2013 میں اُن کی بستی جلا دی گئی۔ تو اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
اُن کے بقول بستی کے مکین اب بھی انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی دوبارہ بستی پر حملہ نہ کر دے۔ اب جب کہ ساون مسیح کی رہائی کا حکم آ گیا ہے تو خدشہ ہے کہ پھر کوئی تنظیم یا گروہ اُن کی بستی کو نقصان نہ پہنچا دے۔
ساون مسیح کے بھائی ہمایوں مسیح جو والڈ سٹی اتھارٹی میں ملازم ہیں اپنے بھائی کی رہائی پر خوش تو ہیں۔ لیکن اُن کے بقول اُن کے دل میں ایک انجانا سا خوف بھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ساون مسیح کے بھائی نے بتایا کہ 2012 کے آخر میں بھائی پر توہینِ مذہب کا الزام لگا تھا۔ لہٰذا سالوں بعد بھائی رہا ہو کر آ رہا ہے اس کی خوشی تو ہے۔
ہمایوں مسیح نے بتایا کہ اُن کے والد کی ساری جمع پونجی کیس لڑتے اور پیشیاں بھگتنے میں لگ گئی۔ عدالت نے بھائی کو بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ اگر میرے بھائی نے کوئی گناہ کیا ہوتا۔ تو کیا یہ لوگ جینے دیتے۔ اب بھی خطرہ ہے کہ کچھ لوگ یہ اشتعال پھیلا سکتے ہیں کہ ساون کو رہائی کیوں ملی۔
ساون مسیح کیس کا پس منظر
مارچ 2013 میں جوزف کالونی لاہور کے رہائشی ساون مسیح کے خلاف توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔ ساون مسیح کو لاہور کی سیشن کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی۔
پولیس نے ساون مسیح کے علاقے کے رہائشی شاہد عمران نامی شخص کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔
مقدمے میں شاہد عمران نے ساون مسیح پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے جوزف کالونی پر دھاوا بول دیا تھا اور گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
مشتعل ہجوم کے حملے میں مسیحی برادری کے 100 سے زیادہ مکان اور دکانیں نذر آتش کی گئی تھیں۔
حملے کے بعد پولیس نے 100 سے زائد افراد کو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم ان تمام افراد کو بعد ازاں ناکافی شواہد کے باعث رہا کر دیا گیا تھا۔
ساون مسیح کو پولیس نے واقعے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا تھا۔ ایک سال تک ٹرائل کورٹ میں اُن کا کیس چلا اور عدالت نے اُنہیں توہینِ مذہب کے قانون کے تحت سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے کے خلاف ساون مسیح نے 2014 میں لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سانحے کے 35 گھنٹوں بعد پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔
اپیل میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر کا تاخیر سے اندارج ہونا پولیس کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درج شدہ ایف آئی آر اور مدعی کے بیانات میں واضح تضاد ہے۔ ٹرائل کورٹ نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کے باوجود اسے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ لہٰذا عدالتِ عالیہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
جوزف کالونی لاہور کے علاقے بادامی باغ سے متصل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بستی ہے۔
جوزف کالونی میں گھروں کو جلانے کے واقعات کی مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھرپور کوریج کی تھی جس کے بعد اُس وقت کی پنجاب حکومت نے ازسر نو یہاں مکانات تعمیر کرائے تھے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین
پاکستان میں توہینِ مذہب انتہائی حساس معاملہ تصور کیا جاتا ہے اور قانون کے تحت اس میں عمر قید اور موت کی سزائیں رکھی گئی ہیں۔
توہینِ مذہب کیس میں سپریم کورٹ سے رہائی پانے والی آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک کے مطابق ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان توہینِ مذہب کے کیسز میں اکثر اوقات وکلا اور معاشرے کے بعض طبقات کے دباؤ میں آ کر فیصلے کرتے ہیں جس کے باعث انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ جب یہ اپیل ہائی کورٹ میں آتی ہے تو یہ فیصلے کالعدم ہو جاتے ہیں۔
سیف الملوک نے بتایا کہ ایسے کیسز میں اگر کوئی بے گناہ شخص آٹھ، 10 سال جیل میں گزار دے تو ایک طرح سے پھانسی سے بھی بڑی سزا ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہینِ مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا تھا جس کے بعد آسیہ بی بی اہل خانہ کے ہمراہ کینیڈا چلی گئی تھیں۔ آسیہ بی بی بھی کئی سال تک اس الزام میں جیل میں رہی تھیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں توہینِ مذہب سے متعلق قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس حساس مسئلے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کا رویہ ہمیشہ محتاط رہا ہے۔