پاکستان کی ایک عدالت نے توہین رسالت کے الزام میں ایک مسیحی شخص کو موت کی سزا سنائی ہے۔
پنجاب کے مرکزی شہر لاہور کے سیشن جج غلام مرتضیٰ نے جمعرات کی سہ پہر جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران ساون مسیح کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا۔
ساون مسیح پر گزشتہ سال مارچ میں پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات کہنے کا الزام ان کے ایک مسلمان دوست نے اس وقت لگایا جب ان دونوں کے درمیان اسنوکر کھیلتے ہوئے کسی بات پر جھگڑا ہوا۔
پولیس نے ساون مسیح کو آٹھ مارچ 2013ء کو ہی حراست میں لے لیا تھا لیکن درجنوں مشتعل مسلمان نوجوانوں نے جوزف کالونی نامی عیسائی بستی پر دھاوا بول کر وہاں گھروں کو نذر آتش کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران دو گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ساون مسیح کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔
جوزف کالونی میں تشدد کے واقعے کے بعد یہاں سے بہت سے مسیحی خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گئے تھے جب کہ پولیس نے بلوا کرنے کے الزام میں درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا۔ اس مقدمے میں نامزد 40 سے زائد افراد ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں توہین اسلام کے قانون میں ترامیم کا مطالبہ کرتے ہوئے حقوق انسانی کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی رنجش یا دشمنی کے معاملات میں بدلہ لینے کے "غلط انداز" میں استعمال کیا جاتا ہے۔
توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائے جانا کا یہ پہلا مقدمہ نہیں، اس سے قبل 16 افراد کو اسی قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے جب کہ کم ازکم دیگر بیس افراد عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی بھی مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ساون مسیح کو سنائی گئی سزا کی مذمت کی گئی ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں اس مقدمے کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ساون کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں جو عیسائیوں کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔
پنجاب کے مرکزی شہر لاہور کے سیشن جج غلام مرتضیٰ نے جمعرات کی سہ پہر جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران ساون مسیح کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا۔
ساون مسیح پر گزشتہ سال مارچ میں پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات کہنے کا الزام ان کے ایک مسلمان دوست نے اس وقت لگایا جب ان دونوں کے درمیان اسنوکر کھیلتے ہوئے کسی بات پر جھگڑا ہوا۔
پولیس نے ساون مسیح کو آٹھ مارچ 2013ء کو ہی حراست میں لے لیا تھا لیکن درجنوں مشتعل مسلمان نوجوانوں نے جوزف کالونی نامی عیسائی بستی پر دھاوا بول کر وہاں گھروں کو نذر آتش کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران دو گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ساون مسیح کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔
جوزف کالونی میں تشدد کے واقعے کے بعد یہاں سے بہت سے مسیحی خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گئے تھے جب کہ پولیس نے بلوا کرنے کے الزام میں درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا۔ اس مقدمے میں نامزد 40 سے زائد افراد ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں توہین اسلام کے قانون میں ترامیم کا مطالبہ کرتے ہوئے حقوق انسانی کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی رنجش یا دشمنی کے معاملات میں بدلہ لینے کے "غلط انداز" میں استعمال کیا جاتا ہے۔
توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائے جانا کا یہ پہلا مقدمہ نہیں، اس سے قبل 16 افراد کو اسی قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے جب کہ کم ازکم دیگر بیس افراد عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی بھی مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ساون مسیح کو سنائی گئی سزا کی مذمت کی گئی ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں اس مقدمے کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ساون کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں جو عیسائیوں کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔