پاکستان کے شمالی مغربی صوبے بلوچستان میں مسیحی برادری پر حالیہ مہینوں میں ہونے والے دو مہلک حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا جس کے بعد ملک میں مسیحی برادری کے اپنی سکیورٹی کے متعلق تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔
داعش کی طرف سے اگرچہ اس سے قبل بھی پاکستان میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہی ہے لیکن مسیحی برادری کو ہدف بنانے کے بعد بطورِ خاص پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد مسیحی خوف کا شکار ہیں۔
رواں ہفتے ایسٹر کے تہوار کے ایک روز بعد ہی کوئٹہ میں ایک مسیحی خاندان کے چار افراد کو اُس وقت گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سفر کر رہے تھے۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔
اس سے چند ماہ قبل دسمبر 2017 میں کرسمس کے تہوار سے چند دن قبل کوئٹہ ہی میں ایک گرجا گھر پر دو خود کش بمباروں نے حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 9 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
ان دونوں حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
پاکستان میں مسیحی برادری کے ایک سرگرم رکن ندیم انتھونی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ داعش کی طرف سے اُن کی برادری پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
"کافی تشویش پائی جا رہی ہے۔ جو مسیحی برادری ہے، ڈرے ہوئے ہیں لوگ اور ان کو قابلِ قبول بھی نہیں ہے۔۔۔۔ دوسرا اگر داعش یہاں پر کچھ اس طرح کی چیزوں میں سرگرم ہے تو یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ تو ریاست نے کرنا ہے کہ وہ ذمہ داری پوری کرے اور اس طرح کے جو نیٹ ورکس ہیں ان کو بے نقاب کرے۔ ان کو ناکام کرے۔"
ندیم انتھونی نے شام اور عراق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں داعش نے مسیحی برداری کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اس ملک ہی کے شہری ہیں اور وہ کسی مذہبی تبلیغ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ داعش کی طرف سے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی مزید زور پکڑ سکتی ہے۔
"یہ یقیناً باعث تشویش ہے۔ اس سے پاکستان میں جو مذہبی انتہا پسندی ہے اس کو مزید بڑھاوا ملے گا۔ اضافہ ہو گا۔۔۔ پاکستان میں جو مذہبی انتہا پسندی ہے اس میں کوئی بھی (دہشت گرد) تنظیم جگہ بنا سکتی ہیں کیوں کہ یہاں ہر قسم کی انتہا پسندی موجود ہے۔"
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق کرسٹوفر قیصر کا تعلق بھی مسیحی برداری ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
"باعثِ تشویش ہی نہیں، باعثِ شرمندگی بھی ہے اور اب حالات دیکھ لیجیے کہ انسان انسان کو قتل کر رہا ہے۔ کبھی پنجابیوں کو چن کر مار دیا جاتا ہے۔۔۔ کبھی مسیحیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔ یہ جو روش ہے فرقوں کے خلاف، مذہبوں کے خلاف، جماعتوں کے خلاف یہ تو بڑی خطرناک حد تک یہ بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔"
طارق کرسٹوفر قیصر نے کہا کہ وہ اس بارے میں ایوان میں آواز بلند کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ کام کرتے رہیں گے۔
"پارلیمنٹ کے فلور پر میں بارہا احتجاج کر چکا ہوں۔۔۔۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب ان کو تحفظ فراہم کرے۔"
باوجود اس کے کہ ملک میں داعش کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے اور اس کی حمایت میں بعض علاقوں میں نہ صرف دیواروں پر چاکنگ بلکہ پوسٹر بھی آویزاں کیے جاتے رہے ہیں، حکام مسلسل یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ داعش کا ملک میں منظم وجود نہیں ہے۔
تاہم ناقدین یہ کہتے ہیں کہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی موجودگی کا اعتراف کیا جائے اور سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی بنائی جائے۔