پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک گرجا گھر پر اتوار کو خودکش حملے کے بعد ملک بھر میں اور بطورِ خاص مسیحیوں کی عبادت گاہوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
پاکستانی میں مسیحی آبادی کی شرح دو فی صد کے لگ بھگ ہے اور اس سے قبل بھی اُنہیں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
کرسمس کے موقع پر عموماً گرجا گھروں کے باہر سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے جاتے ہیں تاہم کوئٹہ میں حملے کے بعد کرسمس سے ایک ہفتہ قبل ہی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
کوئٹہ میں اتوار کو گرجا گھر پر کیے جانے والے حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا تھا جب مسیحی برداری سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 400 افراد وہاں ایک دعائیہ تقریب میں شریک تھے۔
پولیس حکام کے مطابق ایک خودکش حملہ آور کو چرچ کے باہر ہی پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کہ دوسرا مرکزی دروازے تک پہچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
شدت پسند تنظیم داعش سے وابستہ ویب سائٹ 'عماقہ' پر اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم کی شاخ ’داعش خراسان‘ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
داعش نے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت قائم کر رکھی تھی جس کے بعد اس شدت پسند تنظیم نے اپنا دائرۂ اثر خراسان تک بڑھانے کی کوشش کی تھی۔
تاریخی اعتبار سے خراسان میں افغانستان، پاکستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقے شامل تھے۔
پاکستانی حکام کہتے آئے ہیں کہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں داعش خراسان اپنے قدم جما رہی ہے اور اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی ’داعش خراسان‘ کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے کر چکی ہے۔
لیکن پاکستانی حکومت ملک میں داعش کی منظم موجودگی کی مسلسل تردید کرتی آئی ہے۔
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے پیر کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ کوئٹہ میں گرجا گھر پر ہونے والے حملے کی طرح کی کارروائیوں سے دہشت گرد پاکستانی معاشرے میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’اس مرحلے پر مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنانے کا مقصد ہے کہ وطن عزیز میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو متاثر کر کے ملک کو غیر مستحکم کر دیا جائے۔‘‘
کوئٹہ میں حملے کے بعد مسیحی برداری سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل پشاور میں 2013ء میں ایک گرجا گھر پر خودکش حملے میں کم از کم 80 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
گزشتہ سال لاہور میں ایسٹر کے موقع پر بھی ایک پارک میں مسیحی برداری سے تعلق رکھنے والوں کو خودکش بم حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں بچوں اور خواتین سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک ہو ئے تھے۔
لاہور میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اگرچہ پاکستان میں گزشتہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آئی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
خاص طور پر صوبۂ بلوچستان میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا اور افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں میں بھی عسکریت پسندوں کی طرف سے ایسی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔