رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کی تفریق کے بغیر ہر شہری کے مساوی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے حکومتی دعوؤں کے باوجود پاکستان میں غیر مسلموں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے متعلق کوئی نہ کوئی خبر سامنے آتی رہتی ہے۔
تازہ ترین واقعہ جنوبی پنجاب کے علاقے بوریوالہ میں پیش آیا ہے جہاں ایسا ہی مبینہ امتیازی سلوک ایک نوجوان مسیحی لڑکے کی موت کا سبب بنا۔
سترہ سالہ شارون مسیح کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ اسے پہلے بھی اسکول میں مسلمان لڑکوں کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 30 اگست کو اس کے ایک ہم جماعت لڑکے احمد رضا نے صرف اس بنا پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا کہ شارون نے اسی گلاس سے پانی پیا جو احمد یا دیگر لڑکے استعمال کرتے تھے۔
مبینہ تشدد سے شارون کی حالت غیر ہونے پر اسے اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔
واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، احمد رضا پولیس کی تحویل میں ہے، اسکول کے ہیڈ ماسٹر سمیت پانچ اساتذہ معطل ہیں اور ان کے خلاف انکوائری بھی جاری ہے۔
لیکن یہ واقعہ ایک بار پھر اس تشویش کو ہوا دے رہا ہے کہ ملک میں غیر مسلم آبادی کے لیے سماجی رویوں میں تنگ نظری کا عنصر موجود ہے جو بسا اوقات مہلک نتائج کا سبب بنتا ہے۔
مبینہ تشدد سے شارون کی موت کے واقعے پر منگل کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی میں بھی ارکان اسمبلی نے آواز اٹھاتے ہوئے ایسے مہلک رجحان اور غیر صحت مندانہ رویوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن خلیل جارج نے ایوان میں اس واقعے پر بات کرتے ہوئے اسے قوم کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا۔
جارج نے حالیہ دنوں میں بوریوالہ میں شارون مسیح کے لواحقین سے ملاقات بھی کی تھی۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات باعث حیرت ہے کہ اسکول میں تدریسی عمل جاری تھا اور اس دوران یہ واقعہ ہوا اور کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔
خلیل جارج نے کہا کہ پاکستان میں آباد لوگوں کا مذہب بھلے الگ ہے لیکن ان کا ملک ایک ہی ہے اور ایسے واقعات کسی برادری کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
"میں نے مطالبہ کیا ہے کہ جس اسکول میں یہ بچہ قربان ہوا ہے اس کا نام شارون مسیح اسکول رکھیں تاکہ اقلیتوں میں پائی جانے والی تنہائی اور تشویش کا ازالہ ہو سکے۔"
ذرائع ابلاغ میں شارون کے لواحقین کی طرف سے ایسے الزامات کو تذکرہ بھی سامنے آیا تھا کہ ملزم اور اساتذہ کو کسی بھی طرح اس معاملے سے نکالنے کے لیے پولیس سنجیدگی سے مقدمے پر توجہ نہیں دے رہی۔
لیکن نہ صرف مقامی پولیس کے سربراہ بلکہ خلیل جارج نے بھی یقین دلایا کہ اس کارروائی پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ملزم بچ نہ سکیں۔
انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے جواب طلب کر لیا ہے۔