امریکی محکمۂ خارجہ نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور حقوق سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کردی ہے جس میں بعض مسلمان ملکوں میں توہین اور تبدیلیٔ مذہب سے متعلق قوانین پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
بدھ کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں امریکی حکومت کے اس موقف کو دہرایا گیا ہے کہ اس نوعیت کے قوانین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جن جن ملکوں کے قوانین یا معاشرتی روایات توہین یا تبدیلیٔ مذہب پر سزائے موت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہاں کے تمام شہریوں کو حملوں کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے معاشروں کے کمزور طبقات خصوصاً اقلتیں، خواتین اور غریب زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کو بھی ان ممالک میں شمار کیا گیا ہے جہاں توہینِ مذہب یا تبدیلیٔ مذہب سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی 40 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت کے منتظر ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق اقلیتی طبقات سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق سوڈان کی حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں 27 مسلمان شہریوں کو حراست میں لیا جن کا تعلق مسلمانوں کے ایک ایسے فرقے سے ہے جو صرف قرآن کو واحد ذریعۂ ہدایت مانتا ہے اور عام مسلمانوں کی رائے کے برعکس حدیث کو اسلامی فقہ اور قوانین کی بنیاد نہیں مانتا۔
رپورٹ میں ایران کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت نے گزشتہ سال 20 افراد کو "محاربہ" یعنی "خدا سے دشمنی" کے مبہم الزام پر پھانسی دی جن میں سے بیشتر کا تعلق ایران کی سنی العقیدہ کرد اقلیت سے تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں اس وقت بھی کئی سنی مبلغین سمیت بہت سے افراد مذہبی نوعیت کے مختلف الزامات کے تحت جیلوں میں قید اور اپنی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ گزشتہ سال دو دہشت گرد گروہوں، داعش اور بوکو حرام نے بطور خاص مذہبی حقوق اور آزادیوں کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھا جن کی کارروائیوں میں ہزاروں افراد مارے گئے۔
رپورٹ میں چین اور روس میں بھی مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔