رسائی کے لنکس

پاکستانی بچوں کے سنگین ترین مسائل


پاکستانی بچوں کے سنگین ترین مسائل
پاکستانی بچوں کے سنگین ترین مسائل

یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو اپنی زندگی کی دوسری دہائی میں استحصال اور زیادتیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس سے وہ تب ہی بچ سکتے ہیں اگر وہ انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ علم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی حفاظت کر سکیں۔ ادارے نے اس امر پر زور دیا ہے کہ دس سے انیس سال کی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی رائے کے اظہار کا بھرپور موقع فراہم کیا جانا چائیے اور اس ضمن میں ایسے قوانین ، پروگراموں اور پالیسیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے جو بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔

بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونسیف نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دودہائیوں کے دوران بچوں اور نوجوانوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری سے دنیا بھر میں بچوں کی مجموعی حالت زار کسی حد تک بہتر ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں بچوں کی صورت حال کو بہتر بنانا بدستورایک بڑا چیلنج ہے۔

’’بلوغت موقع کی عمر‘‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ 2011میں کہا گیا ہے کہ اگر دنیا سے غربت اور نا انصافی کا خاتمہ کرنا ہے تو دس سے انیس سال کی عمر کے ایک ارب سے زیادہ بچوں پر سرمایہ کاری کرنا نہایت ضروری ہے کیوں کے اگر بچوں اور نوجوان کی صحت، تعلیم اور تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے گی تو یہی نسل کل کو ایک مفید اور کارآمد افرادی قوت بن کر اپنے ملکوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں مدد دے گی۔

عالمی تنظیم کے جائزے کے مطابق پاکستان میں غربت اور تعلیم تک محدود رسائی کی وجہ سے نوعمر افراد کو جو سنگین ترین مسائل درپیش ہیں ان میں جسمانی اور جنسی تشدد ، انسانی سمگلنگ اور کم عمری کی شادیاں نمایاں ہیں۔

رپورٹ میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں غربت اور محرومی کا شکار نو عمر لڑکوں کو غیر ریاستی گروپوں کی طرف سے اپنے ساتھ ملا کر اپنے نظریات میں ڈھالنے کا خطرہ مو جود ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ بہت سے کم عمر پاکستانی بچے نہایت کم یا بنا اجرت کے ہی طویل گھنٹے مضر صحت ماحول میں جبری مشقت کر رہے ہیں تاکہ اپنے والدین کا لیا ہوا قرض اتار سکیں۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اسلام آباد میں یونیسیف کے نمائندے سمیع ملک نے پاکستان میں بچوں کو در پیش مسائل کی ایک اہم وجہ زیادہ آبادی اور غربت کو قررا دیا ’’ وہ والدین جن کے بچے زیادہ ہوتے ہیں وہ بچے نا صرف تعلیم اور اچھی صحت سے محروم رہتے ہیں بلکہ چھوٹی عمر سے ہے انہیں اپنے غریب خاندان کی کفالت کے لیے مزدوری کرنا پڑتی ہے اور یوں ان بچوں کے استحصال کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘‘

ادھر مقامی میڈیا میں شائع ہونے والے ایک تازہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ لاہور، پشاور کوئٹہ اور راولپنڈی سمیت ملک کے دس شہروں میں اس وقت آبادی میں اضافے کا زبردست دباؤ ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو اپنی زندگی کی دوسری دہائی میں استحصال اور زیادتیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس سے وہ تب ہی بچ سکتے ہیں اگر وہ انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ علم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی حفاظت کر سکیں۔

ادارے نے اس امر پر زور دیا ہے کہ دس سے انیس سال کی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی رائے کے اظہار کا بھرپور موقع فراہم کیا جانا چائیے اور اس ضمن میں ایسے قوانین ، پروگراموں اور پالیسیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے جو بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔

رپورٹ میں دیے گئے عالمی جائزے کے مطابق گذ شتہ بیس سالوں کے دوران بچوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے اس حد تک حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں کہ دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات تینتیس فیصد تک کم ہوئی ہے،

پرائمری کی سطح پر اب لڑکیوں کی سکول میں داخلے کی شرح بھی لڑکوں کے برابر آ رہی ہے، لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو پینے کے صاف پانی اور ضروری ادویات بشمول حفاظتی ویکسینوں تک پہلے سے بہتر رسائی حاصل ہے۔

لیکن دوسری طرف ترقی پذیر ملکوں میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کی اموات ، لڑکیوں اور لڑکوں پر جسنی اور جسمانی تشدد کی زیادہ شرح جبکہ کروڑوں کی تعداد میں نوجوان کی بے روز گاری اب بھی اہم مسائل ہیں۔

XS
SM
MD
LG