پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے تاہم اُن کے بقول اس معاملے پر غیر ضروری سیاسی بیان بازی کے باعث بات چیت کا عمل سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اُن کا اشارہ طالبان کے رابطہ کاروں کی جانب تھا جو تواتر سے مذاکرتی عمل کے بارے میں میڈیا میں بیانات دیتے آ رہے ہیں۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت کی سنجیدگی کے باعث مذاکرات کا عمل میں پیش رفت ممکن ہوئی۔
’’جن لوگوں کا کام تھا معاونت کا، وہ روز جلسہ عام کر دیتے ہیں۔ میٹنگ میں کچھ اور طے ہوتا ہے اور الزام حکومت پر لگ جاتا ہے۔۔۔ جو کوئی اُٹھتا ہے کہتا ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے، بجائے اپنی طرف دیکھیں۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ وہ وزیراعظم کو آئندہ پیر کو یہ رپورٹ دینے والے ہیں کہ اس ’’کھینچا تانی اور تماشہ عام" کے ماحول میں سنجیدہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں، اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کے آغاز کے بعد دہشت گرد حملوں میں واضح کمی آئی ہے۔
’’ایک رابطہ بنا ہے، ہمیں ایک اندازہ ہوا ہے، اُن (طالبان) کے خیالات کا، اُن کی سوچ کا، اُن کے مطالبات کا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی حکمت عملی پر فوج اور حکومت کے درمیان کسی طرح کا اختلاف نہیں۔
یاد رہے کہ طالبان یہ کہتے آئے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے غیر عسکری قیدیوں کو رہا کرے۔ گو کہ سرکاری عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں حکومت نے خیر سگالی کے طور پر 19 قیدی رہا کیے اور مزید ایک درجن سے زائد چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔
طالبان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں 10 اپریل تک توسیع کر دی گئی تھی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں کہ فائر بندی نا ہونے کی صورت میں مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اُن کا اشارہ طالبان کے رابطہ کاروں کی جانب تھا جو تواتر سے مذاکرتی عمل کے بارے میں میڈیا میں بیانات دیتے آ رہے ہیں۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت کی سنجیدگی کے باعث مذاکرات کا عمل میں پیش رفت ممکن ہوئی۔
’’جن لوگوں کا کام تھا معاونت کا، وہ روز جلسہ عام کر دیتے ہیں۔ میٹنگ میں کچھ اور طے ہوتا ہے اور الزام حکومت پر لگ جاتا ہے۔۔۔ جو کوئی اُٹھتا ہے کہتا ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے، بجائے اپنی طرف دیکھیں۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ وہ وزیراعظم کو آئندہ پیر کو یہ رپورٹ دینے والے ہیں کہ اس ’’کھینچا تانی اور تماشہ عام" کے ماحول میں سنجیدہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں، اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کے آغاز کے بعد دہشت گرد حملوں میں واضح کمی آئی ہے۔
’’ایک رابطہ بنا ہے، ہمیں ایک اندازہ ہوا ہے، اُن (طالبان) کے خیالات کا، اُن کی سوچ کا، اُن کے مطالبات کا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی حکمت عملی پر فوج اور حکومت کے درمیان کسی طرح کا اختلاف نہیں۔
یاد رہے کہ طالبان یہ کہتے آئے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے غیر عسکری قیدیوں کو رہا کرے۔ گو کہ سرکاری عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں حکومت نے خیر سگالی کے طور پر 19 قیدی رہا کیے اور مزید ایک درجن سے زائد چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔
طالبان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں 10 اپریل تک توسیع کر دی گئی تھی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں کہ فائر بندی نا ہونے کی صورت میں مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔