پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ سال مارچ میں ملک میں مردم شماری اور خانہ شماری کروائی جائے گی۔
حکومت نے یہ بات پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں جمع کراوئے گئے ایک تحریری جواب میں بتائی۔ عدالت عظمٰی کو بتایا گیا ہے ملک میں مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل پندرہ مارچ سے شروع ہوگا اور پندرہ مئی تک مکمل ہو جائے گا۔
پاکستان کے آئین کی رو سے ملک میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کروانا ضروری ہے تاہم ملک میں آخری مردم شماری اٹھارہ سال قبل ہوئی تھی۔
اس دوران مردم شماری کروانے کے مطالبات کے باوجود یہ عمل بوجوہ مکمل نا ہو سکا۔ تاہم پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ایک آئینی اقدام پر گزشتہ کئی سالوں سے عمل نا ہونے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے اس پر جواب طلب کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ پندرہ مارچ سے مردم شماری کروائے اور اس بارے میں سرپم کورٹ کو آئندہ سماعت پر حتمی طور پر آگاہ کرے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بیچ نے جب بدھ کو اس معاملے کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے ایک تحریری بیان داخل کیا جس میں عدالت عظمیٰ کو یقینی دہانی کروائی گئی کی حکومت آئندہ سال مارچ کے وسط سے ملک میں مردم شماری کروانے کا عمل شروع کرے گی۔
1998 میں ہونے والے مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ 80 لاکھ کے قریب تھی تاہم رواں سال جاری ہونے والے ملک کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی 19 کروڑ پچاس لاکھ کے قریب بتائی گئی۔
اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری نا صرف ملک میں موثر اقتصادی منصوبہ سازی کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک کی پارلیمان اور دیگر منتخب عوامی اداروں میں عوام کی نمائندگی کے حوالے سے بھی کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔
پاکستان میں اقتصادی امور کے ماہر قیصر بنگالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ملک میں اقتصادی اور دیگر شعبوں میں منصوبہ سازی پرانے اعدادوشمار کی بنیاد پر ہی ہوتی رہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اگر مردم شماری کا عمل مکمل ہو جائے گا تو یہ ایک جامع منصوبہ بندی کی تشکیل میں معاون ہو گا۔
" یہ بہت اہم بات ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتی ہے کہ کہاں پر کتنی آبادی ہے اور (ہر) صوبہ کی آبادی کیا شرح ہے اس میں ہر قسم کے اعداوشمار ہوتے ہیں جو معاشی اور سماجی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔"
قیصر بنگالی نے کہا کہ ملک کے پارلیمان اور ملک کے صوبائی اور دیگر منتخب اداروں میں ملک کی آبادی کی نمائندگی کی شرح کے لیے بھی مردم شماری ضروری ہے۔
" اس کا سیاسی نمائندگی پر بھی اثر پڑتا ہے ( اس کے لیے) پتہ ہونا چاہیے کہ گاؤں کی آبادی کتنی ہے شہروں کی آبادی کتنی ہے اور اس سے اسملی کی نشستوں کی حلقہ بندی کی جاتی ہے اگر مردم شماری نہیں کروائیں گے اور پرانے اعدادوشمار کے مطابق حلقہ بندی کرتے رہیں گے تو لوگوں کی نمائندگی صیح نہیں ہو گی۔ اس لحاظ سے بھی (مردم شماری ) اہم ہے۔"
قیصر بنگالی نے کہا آئندہ سال ملک میں مردم شماری اور خانہ شماری کروانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل کی تکمیل کے بعد یقینی طور پر ملک میں اقتصادی و سماجی منصوبہ بندی کا عمل معروضی حقائق کے مطابق عمل میں لایا جا سکتا ہے۔