’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کے اگلے سال کےبجٹ کی آمد آمد ہے اور تشویش یہ ہے کہ حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے امیروں پر ٹیکس لگا کر آمدنی میں اضافہ کرنے کے بجائے نوٹ چھاپنے پر تکیہ کرے گی، جِس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور معیشت روزگار کے کافی مواقع پیدا نہیں کر رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی بینک نے پچھلے سال سے پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی ادائگی روک رکھی ہے، جوپاکستان کے لیے 11.3ارب ڈالر کی آخری قسط ہے۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کےلیے سخت قدم نہیں اُٹھائے۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی بجٹ کی امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی رقم روک رکھی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان نے نہایت امیر لوگوں پر ٹیکس نہ لگا کر قرضوں پر تکیہ کر رکھا ہے۔ اِس کی بجٹ کا ایک چوتھائی پرانے قرضوں پر سود ادا کرنے پر خرچ ہوجاتا ہے، جِس کےمعنی یہ ہیں کہ صحتِ عامہ اور تعلیم کےلیے تھوڑی رقم دستیاب ہے۔
حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے پر تکیہ کر رکھا ہے۔ رواں مالی سال کےلیے اُس کا تخمینہ مجوعی قومی پیداوار کا چھ فی صد ہے۔ ایسا کرنے سے حکومت نے افراطِ زر کو 13فی صد تک بڑھنے دیا ہے۔ اِس سے پیدا شدہ صورتِ حال کی وجہ سے نجی کاروباری طبقے کو بینک قرضے حاصل کرنے میں مشکل آتی ہے۔
بیرونی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان کی سکیورٹی کی صورتِ حال کی وجہ سے ہچکچاہٹ میں مبتلہ ہیں اور کم و بیش ادھر کا رُخ نہیں کرتے۔ نتیجتاً، ملک کی شرحِ نمو سکڑ رہی ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹرئیس کا قندھار میں ایک فارورڈ بیس پر انٹرویو کیا ہے۔ اِس دوران، اُنھوں نے بتایا کہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کو طالبان اور دوسری باغی تنظیموں کے خلاف جو کامیابیاں ہوئی ہیں وہ کمزور بھی ہیں اور پلٹ بھی سکتی ہیں۔ لہٰذا، اُن کا کہنا تھا کہ اُس ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ایک ایسی ضرورت ہےجو جاری رہے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں کے دوران جو فوجی آپریشن ہوں گے وہ پچھلے سال میں خاص طور پر جنوبی افغانستان میں علاقائی فتوحات کو برقرارکھنے کے لیے بہت ضروری ہوں گے۔
عالمی ادارہٴ صحت کے ایک تازہ انتباہ میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اِس سے انسان کو دماغی سرطان کی بعض اقسام میں مبتلہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اِس لیے اُنھیں اِس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔
اِس انتباہ کے پیچھے اس ادارے کے 14ملکوں کے 31سائنس دانوں کی تحقیق ہے، جِن کا کہنا ہے کہ تمام دستیاب سائنسی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیل فونوں کے استعمال سے اسے سرطان کا امکان ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ اس ادارے کی رائے کی روشنی میں بہت سے ملک اپنے ضابطے وضع کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے ماہرین کو اس وقت شبہات بھی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے دو عشروں کے دوران امریکہ میں سیل فونز کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، لیکن اِس دوران دماغ کے سرطان کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور سائنس داں ابھی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیل فون سے جو ریڈیو فریکیوئینسی الیکٹرک لہریں نکلتی ہیں اُن سے سرطان کیسے ہو سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت مصلحت اِسی میں ہے کہ مزید رسرچ کی جائے۔اخبار یہ بھی کہتا ہے کہ جو لوگ سیل فون کا زیادہ استعمال کرتے ہوں اُنھیں حفظ ما تقدم کے طور پر ہیڈ سیٹ اور اسپیکر فون کا سہارا لینا چاہیئے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: