جمعے کے دِن پاکستان کی قومی اسمبلی میں نئےمالی سال کے لیے27کھرب67ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ وزیرِ خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے مالیاتی خسارہ کم کیا ہے اور ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل کے باوجود مالی استحکام کی جانب گامزن کیا گیا ہے۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے زبردست احتجاجی نعرے لگائے۔ حزبِ اختلاف مسلم لیگ کے سکریٹری اطلاعات احسن اقبال نے بجٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے تین سالوں سے ہم تسلسل سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ تمام اہداف جو بجٹ میں رکھے جاتے ہیں، وہ تمام وعدے جو بجٹ کے ذریعے عوام سے کیے جاتے ہیں ، اُن میں سےکسی ایک پر بھی حکومت مکمل طور پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مسئلہ گورننس کا ہے، حکومت کی کارکردگی اور اُس کی اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی صلاحیت کا ہے، جس پر، اُن کے بقول، اپوزیشن کو سخت تحفظات ہیں۔’لگتا یوں ہے کہ شاید پاکستان کے معاشی چیلنجوں کو پورا کرنے میں یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔‘
پارلیمان میں سماجی بہبود کی کمیٹی کی چیرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن روبینہ قائم خانی نے پی ایم ایل ن کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جنھوں نے بجٹ سنا ہی نہیں وہ تبصرہ کس طرح کر سکتے ہیں‘۔
اُن کے بقول، جمعے کو پارلیمان میں افسوس ناک صورتِ حال دیکھی گئی اوروہ بھی ایک ایسی جماعت کی طرف سے جو پچاس فی صد عوام کی نمائندہ ہے ۔
روبینہ قائم خانی کے الفاظ میں، ’جب ملک میں دہشت گردی ہو، معیشت کے حالات بہتر نہ ہوں ، اِس کے باوجود ہم نے جو بجٹ پیش کیا ہے اُس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ ہم نے کرپشن ختم نہیں کردی، لیکن ایکدم سے تو کوئی چیز ختم نہیں ہوجاتی۔ ‘
اُنھوں نے کہا کہ بدعنوانی ’ایک ناسور ہے‘ جسے ختم کرنے میں وقت درکار ہوگا۔
اُن کے بقول، جس طرح ہم نے ایک آمر کے خلاف مقابلہ کیا، اُسی طرح سے ہمیں کرپشن کے خلاف بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔۔۔انشا اللہ، اِس پر بھی قابو پالیں گے۔
ماہرِ اقتصادیات عتیق میر نے موجودہ بجٹ کا گذشتہ سال کے بجٹ سے موازنہ اور عوام پر اس بجٹ کے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بتایا کہ پچھلے چار سالوں میں حکومت نے ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے جن سے اسمبلیوں کے تعشات اور حکومت کے اپنے اخراجات میں کسی طرح کی کمی لائی جاسکے۔
عتیق میر کے الفاظ میں ’ہر سال ہر شعبے میں مختص رقوم کا 60سے 70فی صد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ اگر بجٹ سے جو محصولات حاصل ہوں گے اس کے چار حصے کریں تو دو حصے تو ہمیں سود میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ باقی رہ گئے دوحصے۔ ایک دفاع میں چلا گیا، باقی بچنے والے چوتھائی حصے کے اگر دس حصے کریں تو ایک حصہ عوام کے حصے میں آتا ہے۔‘
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: