پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر توہین مذہب سے متعلق مواد کو روکنے کے لیے حکومت آخری حد تک جائے گی۔
تاہم اُنھوں نے اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی، لیکن اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں کہ حکومت سوشل میڈیا تک رسائی کو ہی بند کر سکتی ہے۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس بارے میں کسی سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔
’’سخت ترین اقدامات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔۔۔۔ مگر اس کے لیے بھی میں نے ٹائم فریم رکھا ہے آئندہ تین چار دنوں میں اگر ہمیں تعاون کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو پھر سخت ترین اقدامات بھی کریں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی مجھ پر تنقید کرے یا حکومت پر تنقید کرے۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس سے گستاخانہ مواد ہٹانے کے لیے رابطہ بھی کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں 11 مشتبہ افراد کی شناخت کی گئی ہے جو کہ مبینہ طور پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث پائے گئے۔
’’پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ان پوسٹس کے پیچھے کون ہے، یہ غیر ملکی تعاون کے بغیر ممکن ہے ہی نہیں۔۔۔۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں آپ بھی تعاون کریں اور باقی تعاون کریں (جن افراد کی نشاندہی کی گئی ہے) وہ اس وقت قصور وار نہیں ہیں مگر کیوں کہ اپ لوڈنگ پاکستان کے اندر سے ہوئی ہے تو گیارہ اشخاص شارٹ لسٹ ہوئے ہیں میں یہ ایک مرتبہ پھر کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار اس وقت گردانے نہیں گئے اس کی تفتیش ہونی ہے تحقیق ہونی ہے ان سے پوچھ گچھ شروع ہو چکی ہے۔‘‘
اس سے قبل چوہدری نثار نے کہا تھا کہ فیس بک انتظامیہ پاکستان کے 20 کروڑ سے زائد عوام اور کروڑوں صارفین کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس سلسلہ میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔
اُنھوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو ہدایت بھی کی ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث عناصر کی نشاندہی کے لیے دیگر حساس اداروں کی مدد بھی حاصل کی جائے۔
جب کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی پولیس ’انٹرپول‘ سے مدد کی بھی درخواست بھی کی گئی ہے۔
حکومت کی طرف سے ان اقدامات کے بارے میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے شہزاد احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر ان کوششوں کا ایک مقصد حکومت یا بعض اداروں سے متعلق سوشل میڈیا پر ہونے والے بحث پر قدغن لگانا بھی ہو سکتا ہے۔
’’ابھی اس وقت ہمارے سامنے ہے جو جو صورت حال سامنے آ رہی ہے اس سے تو عمومی طور پر یوں لگتا ہے کہ اس ساری مہم کا مقصد توہین رسالت سے زیادہ پولیٹیکل ایکسپریشن یا رائے کو روکنا ہے جو عمومی طور پر لوگ اپنے سیاسی جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ہم نے یہ دیکھا ہے اور مسلسل دیکھ رہے ہیں ماضی میں بھی زیادہ جو کریک ڈاؤن ہے وہ پولیٹیکل ایکسپریشن پر ہے۔‘‘
واضح رہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس یا ’سوشل میڈیا‘ پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد کی موجودگی کے بارے میں ایک درخواست اسلام ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے اور عدالت حکومت کو یہ حکم دے چکی ہے کہ نا صرف ایسے مواد تک رسائی کو فوری طور پر بلاک کیا جائے بلکہ وہ افراد جو سوشل میڈیا پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد شائع کرنے میں ملوث ہیں اُن کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُن کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں شامل کیا جائے۔
اُدھر وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق چوہدری نثار کی ہدایت پر واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ کے ایک سینیئر افسر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ’’رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘ کے تحت فیس بک انتظامیہ سے مطلوبہ معلومات کے لیے کوششیں تیز کرے۔
جب کہ ’ایف آئی اے‘ کی جانب سے انٹرپول سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایسے نفرت انگیز اور مذہبی منافرت پر مبنی فیس بک پیجز کی نشاندہی کرے جن کا شمار انٹرپول کے اپنے قوانین کے تحت سنگین جرائم میں ہوتا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق بین الاقوامی عدالتوں میں اس کیس کی پیروی کے لیے ایک معروف قانون دان کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ قانونی طور پر فیس بک کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کو روکا جائے اور ایسے مواد کی موثر طریقے سے روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔