پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے عبوری حکم کے تحت صدر آصف علی زرداری کو اُس عیسائی خاتون کی سزا معاف کرنے سے روک دیا ہے جسے توہین رسالت کے جرم میں ایک ذیلی عدالت نے موت کی سزا سنا رکھی ہے۔
45 سالہ آسیہ بی بی نے ، جو چار بچوں کی ماں ہے، صدرِ پاکستان سے درخواست کر رکھی ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اس لیے اُن کی سزا معاف کردی جائے ۔
پیر کو عدالت عالیہ کا فیصلہ شاہد اقبال نامی ایک پاکستانی شہری کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر اُس درخواست پر سنایا گیا ہے جس میں موقف اختیا کیا گیا ہے کہ آسیہ بی بی نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے اس لیے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک اُسے معافی دینے کا اقدام غیر قانونی ہوگا۔
درخواست گزار کے وکیل اللہ بخش لغاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صر ف عدالت نا کہ کسی انفرادی شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شواہد کا از سر نو جائز ہ لے کر اس بات کا تعین کرے کہ اگر آسیہ بی بی بے گنا ہ تو اُسے رہا کردیا جائے۔
پاکستان میں توہین رسالت کا قانون سابق فوجی آمر ضیا الحق کے زمانے میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن ملک کی اقلیتی برادری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں روز اول سے اس متنازع قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں۔
اس قانون کے تحت توہین رسالت کے مرتکب افراد کو سزائے موت سنانا ایک معمول کی کارروائی ہے لیکن جرم ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کے باعث ملک کی اعلیٰ عدالتیں ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر یہ سزائے موت کو فوری طور پر کالعدم قرار دے دیتی ہیں۔ بعض واقعات میں توہین رسالت کے جرم میں گرفتار افراد کو انتہا پسند مسلمان حملے کر کے ہلاک کرچکے ہیں ۔
پاکستان کے وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے صدر زرداری کو بھیجی گئی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ آسیہ بی بی بے گناہ ہے اس لیے اُس کی سزائے موت کو معاف کردیا جائے۔