خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور کی مسجد مہابت خان کے امام نے ایک عیسائی خاتون کو سنائی گئی سزائے موت معاف ہونے کی صورت میں اُن کو قتل کرنے والے شخص کے لیے ”پانچ لاکھ روپے انعام اور دیگر اعزازات“ کا اعلان کیا ہے۔
توہین رسالت کے مقدمے میں سزا یافتہ 45 سالہ آسیہ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ سے ذیلی عدالت کا فیصلہ منسوخ کرنے کی درخواست کے علاوہ صدر آصف علی زرداری سے رحم کی اپیل بھی کر رکھی ہے۔
مسجد مہابت خان کا شمار پشاور کی بڑی مسجدوں میں ہوتا ہے اور اس کے امام مولانایوسف قریشی نے نماز جمعہ کے بعد ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یا پارلیمان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ آسیہ بی بی کو سنائی گئی سزائے موت معاف کرے۔
اُنھوں نے اعلان کیا کہ اگر عیسائی خاتون کی سزا پر عمل درآمد نا کیا گیا تو ”پاکستان میں جس نے بھی، طالبان، مجاہدین یا کوئی بھی عاشق رسول نے اس (آسیہ بی بی) کو مردار کیا تو ہم مسجد مہابت خان کی طرف سے پانچ لاکھ روپے اُس کو انعام دیں گیاور انعام کے بعد بھی اُس کو بلائیں گے مسجد میں اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔“
اقلیتی اُمور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے عندیہ دیا ہے کہ اگر عدالتی کارروائی میں تاخیر ہوئی یا فیصلہ عیسائی خاتون کے خلاف آیا تو صدر زرداری آسیہ بی بی کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ اُن کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ آسیہ بی بی بے قصور ہے اور اُسے ذاتی جھگڑے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان بیانات کے جواب میں بعض مذہبی جماعتوں نے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے مولانایوسف قریشی کے اس اعلان پر ردعمل میں کہا کہ مسجد مہابت خان کے امام کے بیان کا جائزہ لیا جارہا ہے لیکن صوبے میں حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اورصوبائی حکومت سمجھتی ہے کہ اس ”جھنجھٹ“ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ”ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے جس سے افراتفری پھیلے، لہذاہم سب کو ہوش و حواس سے کام لینا چاہیئے اور عدالت پر ہی فیصلہ چھوڑنا چاہیئے۔“
آزاد خیال اور اعتدال پسند سیاسی جماعت تصور کی جانے والی عوامی نیشنل پارٹی نے مولانایوسف قریشی کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا اشارہ نہیں دیا اور کہا کہ ”عدالت کا کام ہے اور عدالت از خود کارروائی بھی لیتی ہے “ مولانا قریشی کا اعلان کس زمرے میں آتا ہے اس تعین بھی عدالت ہی کرے گی۔