پاکستان کے قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز نے رواں ہفتے ڈیرہ بگٹی میں جاری سرچ آپریشن میں کم از کم 13 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایف سی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک عرصے سے قدرتی گیس کی پائپ لائنوں اور بجلی کے بڑے کھمبوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کرنے والے تخریب کاروں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کیا گیا جس میں فرنٹیئرکور کے ایک ہزار شامل ہیں۔
ضلع ڈیرہ بگٹی کے دو علاقوں دریجن نالہ اور رستم بازار میں ایک کارروائی کے دوران مشتبہ عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپ بھی ہوئی۔
بیان کے مطابق مارے جانے والے افراد مبینہ طور پر گیس پائپ لائنوں کو بم دھماکے سے اڑانے اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے اور ان کے قبضے سے 30 کلوگرام دھماکا خیز مواد کے علاوہ دیسی ساختہ بم اور جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔
دوسری جانب بلوچ ریپبلکن پارٹی نے ایف سی کے دعوؤں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مارے جانے والے عام شہری تھے۔
شورش زدہ علاقے میں ذرائع ابلاغ کی رسائی تقریباً ناممکن ہے جس کی وجہ سے آزاد ذرائع سے یہاں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق مشکل ہے۔
ڈیرہ بگٹی میں قدرتی گیس کے 90 سے زائد کنوئیں ہیں جہاں سے گیس نکالنے کے بعد پائپ لائنوں کے ذریعے اسے سوئی کے مقام پر گیس پلانٹ منتقل کیا جاتا ہے۔
عسکریت پسند آئے روز نہ صرف اس پائپ لائن کو بلکہ صوبہ پنجاب اور سندھ جانے والی گیس پائپ لائنوں کو دھماکا خیز مواد سے اڑاتے رہے۔ رواں سال کے اوائل میں بلوچستان ہی میں شدت پسندوں نے ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن کو بھی تباہ کر دیا تھا جس سے ملک کے ایک بڑے حصے کو بجلی کی فراہمی کئی گھنٹوں تک معطل رہی۔
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے کی جانے والی سنجیدہ کوششوں کی بدولت ماضی کی نسبت حالات میں قابل ذکر حد تک بہتری آئی ہے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔