پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں قربانی دینے والے پولیس کے افسران اور جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہفتہ کو یوم شہدا منایا گیا۔
بلوچستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے شورش پسندی کا سامنا ہے لیکن گزشتہ دو سالوں میں صوبائی حکومت کے مختلف اقدامات اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے ماضی کی نسبت امن و امان میں قابل ذکر بہتری دیکھی گئی ہے۔
یوم شہدا کے سلسلے میں مرکزی شہر کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان میں اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ معاملات سیاسی و جمہوری انداز میں مذاکرات کے ذریعے حل کئے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت اور فوج کے ساتھ مل کر پُر امن بلوچستان پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے انتہائی اہم اور مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔
حکومت بلوچستان نے صوبے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے پہلے ہی گرینڈ بلوچ جرگہ طلب کیا ہے جس میں شرکت کے لیے تمام قبائلی عمائدین کو مدعو کیا جائے گا جرگہ میں خان آف قلات سے جلا وطنی ترک کرنے اور ملک واپس آنے کے حوالے درخواست کی جائے گی اور بعد میں ایک وفد لندن جا کر خان آف قلات سے ملاقات کر ے گا۔
دریں اثناء پاکستان کے یوم آزادی کے سلسلے میں سات روزہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ کے علاقے بلیلی سے ایوب اسٹیڈیم تک سائیکل اور میراتھن ریس کا اہتمام کیا گیا۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والی تقریبات میں مختلف کھیلوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی روایتی اور ثقافتی کے مقابلے میں منعقد کیے گئے ہیں جن میں عوام کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے۔