رسائی کے لنکس

کیا لاہور کی وکٹ نتیجہ خیز ہو سکتی ہے؟


تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا یہ میچ جو بھی جیتے گا، وہ یہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گا۔راولپنڈی اور کراچی میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ میچ ڈرا ہونے کی وجہ سے سیریز اب تک بے نتیجہ رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا یہ میچ جو بھی جیتے گا، وہ یہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گا۔راولپنڈی اور کراچی میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ میچ ڈرا ہونے کی وجہ سے سیریز اب تک بے نتیجہ رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستا ن اور آسٹریلیا کے درمیان 24 سال بعد پاکستانی سرزمین پر ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ پیر سے لاہور میں شروع ہو رہا ہے۔

تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا یہ میچ جو بھی جیتے گا، وہ یہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گا۔راولپنڈی اور کراچی میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ میچ ڈرا ہونے کی وجہ سے سیریز اب تک بے نتیجہ رہی ہے۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لاہور میں وکٹ بھی مختلف ہوگی اور کنڈیشنز بھی الگ ہوں گے۔ اس کے علاوہ پہلی 'بینو قادر ٹرافی' جیتنے کے لیے دونوں کپتان سر دھڑ کی بازی لگانے کی کوشش کریں گے۔

آسٹریلیا نے تیسرے میچ کے لیے فائنل الیون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے گریز کیا ہے۔ جب کہ بابر اعظم بھی اسی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتر سکتے ہیں جس نے کراچی میں یقینی شکست کو ڈرا میں تبدیل کیا تھا۔

قذافی اسٹیڈیم میں بالرز کو مدد ملنے کا امکان

اگر آسٹریلیا کی جانب سے اوپنر عثمان خواجہ، مڈل آرڈر بلے باز مارنس لیبوشین اور وکٹ کیپر ایلکس کیری فارم میں ہیں تو پاکستان سے بھی عبداللہ شفیق، امام الحق اور بابر اعظم کا بلا رنز بنا رہا ہے۔

اظہر علی اور محمد رضوان بھی سیریز کے دوران سنچریاں بنا چکے ہیں البتہ بالنگ میں دونوں ٹیموں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

امکان ظاہر کیا جا رہاہے کہ لاہور کی وکٹ پر پیسرز اور اسپنرز دونوں کو مدد ملے گی۔

شائقین کرکٹ اس سیریز میں ابھی تک آسٹریلیا کے اسٹیو اسمتھ اور پاکستان کے فواد عالم کو اس فارم میں نہیں دیکھ سکے جس کی ان سے امید تھی۔ تاہم لاہور کے میدان میں رنز کرنا ان کی ٹیموں اور مداحوں کے لیے خوش آئند ہوگا۔

پنجاب کے مرکزی شہر میں 2009 کے بعد ہونے والا یہ ٹیسٹ میچ پاکستان کا لاہور میں 41واں اور آسٹریلیا کے خلاف یہاں چھٹا میچ ہوگا۔

اس سے قبل آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے پانچ میچز میں سے تین برابر ہوئے جب کہ پاکستان اور آسٹریلیا نے ایک ایک میچ جیتا۔

آسٹریلوی ٹیم پاکستان تو 24 سال بعد آئی ہے البتہ لاہور میں ٹیسٹ میچ کے لیے شائقین کو 28 سا ل انتظار کرنا پڑا ہے کیوں کہ 1998 میں ہونے والی سیریز میں لاہور میں کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا گیا تھا۔

قذافی اسٹیڈیم سے آسٹریلوی ٹیم کی کافی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ وہی گراؤنڈ ہے جہاں 1987 میں آسٹریلیا نے پاکستان کو سیمی فائنل میں شکست دے کر ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ البتہ نو سال بعد اسی گراؤنڈ پر مارک ٹیلر کی ٹیم کو ورلڈ کپ کے فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کیا لاہور کی وکٹ راولپنڈی اور کراچی سے مختلف ہو گی؟

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا یہ میچ کئی لحاظ سے تاریخ رقم کرے گا۔ نہ صرف پاکستان کے کپتان بابر اعظم اور اظہر علی کا ہوم گراؤنڈ پر یہ پہلا ٹیسٹ میچ ہو گا بلکہ 13 سال کے عرصے کے بعد لاہور میں بھی پہلا ٹیسٹ میچ ہو گا۔

مارچ 2009 میں اسی لاہور اسٹیڈیم آتے ہوئے سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ ایک دہائی تک دور رہی۔

روایتی طور پر لاہور کی وکٹ پر پہلے دن فاسٹ بالرز اور آخری دو دن اسپنرز کو مدد ملتی ہے۔ جو بھی ٹیم یہاں ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرے گی، اس کا پلڑا میچ میں بھاری رہنے کا امکان ہے۔

لیکن موجودہ سیریز میں بالرز کے لیے کچھ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں میچز بے نتیجہ رہے۔ اسی وجہ سے شائقین کی 24 سال بعد پاکستانی سرزمین پر پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں دلچسپی بھی کم رہی۔

شائقین کرکٹ کے احتجاج کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو پہلے دونوں میچز کی وکٹ پر اپنا مؤقف دینا پڑا۔

تیسرا ٹیسٹ میچ جس وکٹ پر کھیلا جائے گا وہ گزشتہ دونوں وکٹوں سےممکنہ طور پر بہتر ہو گی کیوں کہ اس کی تیاری میں آئی سی سی اکیڈمی کے ہیڈ کیوریٹر ٹوبی لمسڈن نے بورڈ کی معاونت کی ہے۔

کیا پاکستان کے نئے بالنگ کوچ شان ٹیٹ کا جادو چل سکے گا؟

پاکستانی بالرز کراچی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں آسٹریلوی بلے بازوں کو آؤٹ نہیں کرسکے تھے اور کپتان بابر اعظم کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہو گا کہ لاہور ٹیسٹ میں وہ ایسا کیا کریں کہ مہمان ٹیم کامیاب نہ لوٹ سکے۔

لاہور ٹیسٹ میں ان کی ٹیم کو خدمات حاصل ہوں گی سابق آسٹریلوی فاسٹ بالر شان ٹیٹ کی، جو ٹیم کو بطور بالنگ کوچ جوائن کر چکے ہیں۔

امکان ہے کہ میچ کو پاکستانی شائقین کے لیے یادگار بنانے میں وہ ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف کے ساتھ کوئی ایسا گیم پلان تیار کریں گے جس میں پاکستانی بالرز کا کردار نمایاں ہوگا۔

شان ٹیٹ کو سیریز سے قبل پاکستان ٹیم کو جوائن کرنا تھا لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر ان کی آمد میں تاخیر ہوئی۔ تاہم وہ پر امید ہیں کہ آئندہ 12 ماہ کے دوران پاکستان کو ایک ایسا بالنگ اٹیک دیں گے جو برسوں قومی ٹیم کی خدمت کرے۔

یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ سیریز آئی سی سی کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے جس میں فی الحال آسٹریلیا کی پہلی اور پاکستان کی دوسری پوزیشن ہے۔

سیریز میں کامیابی فاتح ٹیم کی پوزیشن پوائنٹس ٹیبل پر مستحکم کر دے گی۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG